| ||||
---|---|---|---|---|
(عربی میں: حبيب بن مسلمة) | ||||
معلومات شخصیت | ||||
پیدائش | 610ء کی دہائی مکہ |
|||
وفات | سنہ 662ء (51–52 سال) | |||
شہریت | سلطنت امویہ | |||
عملی زندگی | ||||
پیشہ | عسکری قائد | |||
عسکری خدمات | ||||
وفاداری | خلافت راشدہ اور دولت امویہ | |||
شاخ | خلفائے راشدین اور معاویہ بن ابو سفیان کی فوج. | |||
عہدہ | جرنیل | |||
کمانڈر | شام کی اسلامی فتح جزیرہ فرات، آرمینیا اور روم کی فتوحات |
|||
درستی - ترمیم |
حبیب بن مسلمہ فہری قریشی، کنیت: ابو عبد الرحمن تھی۔ "حبیب دروب" اور "حبیب روم" کے لقب سے بھی مشہور تھے، اس لیے کہ وہاں بہت زیادہ سفر اور جہاد کیا ہے۔ پیغمبر اسلام کی صحبت بھی حاصل رہی ہے اور کچھ روایات بھی ہیں۔ ابوبکر صدیق کے زمانے میں جہاد میں شرکت کی، جنگ یرموک میں بھی شریک ہوئے اور دمشق میں سکونت اختیار کر لی۔ غزوہ تبوک میں ان کی عمر گیارہ سال تھی۔ عثمان بن عفان نے انھیں آرمینیا کے لشکر کا قائد بنایا تھا، پھر معاویہ بن ابو سفیان نے انھیں وہاں کا والی بنا دیا تھا، وہیں سنہ 42ھ میں وفات پائی۔[1]
حبیب بن مسلمہ بن مالک الاکبر بن وہب بن ثعلبہ بن وائلہ بن عمرو بن شیبان بن محارب بن فہر بن مالک بن نضر بن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان۔
حبیب بن مسلمہ کی ولادت مکہ میں ہجرت مدینہ سے دو سال پہلے ہوئی، یعنی پیغمبر اسلام کی وفات کے وقت ان کی عمر بارہ سال تھی۔ اکثر مؤرخین اور علما کا خیال ہے کہ انھیں رسول اللہ کی صحبت حاصل رہی ہے، مگر ان کے ساتھ کسی غزوہ میں شریک نہیں ہوئے پیں۔
حبیب بن مسلمہ کا شمار قریش کے اشراف میں ہوتا تھا، بڑے بہادر اور قائد صفت انسان تھے، بعض مؤرخین انھیں شجاعت و قیادت میں خالد بن ولید اور ابو عبیدہ بن الجراح کے درجے میں شمار کرتے ہیں۔ بچپن ہی سے بہادری، جنگ، تلوار بازی اور شہ سواری پر تربیت پائی تھی۔ اسلام میں اپنی پوری زندگی جہاد اور اسلامی فتوحات میں گزار دی۔[2]
ابوبکر صدیق کے عہد خلافت میں جہاد کے لیے شام روانہ ہوئے، جنگ یرموک میں لشکر میں ایک فوجی کی حیثیت سے شریک رہے۔ عمر بن خطاب کے زمانے میں ابو عبیدہ بن الجراح نے اپنی شام کی ولایت میں انطاکیہ کا عامل بنایا تھا۔ جب عیاض بن غنم نے جزیرہ فرات کو فتح کیا تو اس کے لشکر میں شریک تھے۔ پھر عمر بن خطاب نے انھیں سراقہ بن عمرو کے ساتھ آرمینیا میں مدد کرنے کا حکم دیا، چنانچہ ان کے ساتھ مل کر آرمینیا اور قفقاز کو فتح کیا، پھر جب عثمان بن عفان کے زمانہ میں اسلامی حکومت کے ہاتھ نکلا تو دوبارہ اسے فتح کیا۔[3]
مؤرخین کا اس بات اتفاق ہے کہ اہل شام حبیب بن مسلمہ سے بہت محبت اور تعریف کرتے تھے۔ مستجاب الدعوات (جن کی دعا قبول ہوتی ہے) سمجھے جاتے تھے۔ معاویہ بن ابو سفیان کو ہمیشہ خلفائے راشدین کی سیرت اختیار کرنے کا مشورہ دیتے اور انھیں سمجھاتے تھے، معاویہ ان سے بہت ڈرتے تھے۔ ابن عساکر نے نقل کیا ہے کہ جب معاویہ کو حبیب بن مسلمہ کی وفات کی خبر پہنچی تو انھوں نے سجدہ شکر ادا کیا۔[4]
ان کی وفات کے تعلق سے مؤرخین کا اختلاف ہے۔ چنانچہ مؤرخ بلاذری نے فتوح البلدان میں لکھا ہے کہ عثمان بن عفان نے انھیں شام بھیجا تو وہاں حمص قیام پزیر ہوئے، پھر معاویہ بن ابو سفیان نے انھیں دمشق بھیج دیا، وہیں سنہ 42ھ میں 35 سال کی عمر میں وفات پائی۔ ابن عبد البر نے لکھا ہے کہ معاویہ بن ابو سفیان نے انھیں آرمینیا کا والی بنا دیا تھا، ان کی وفات وہیں سنہ 42ھ میں ہوئی۔ ابن سعد اور ابن عساکر بھی یہی کہتے ہیں۔[5]