حبیب بن مسلمہ فہری

حبیب بن مسلمہ فہری
(عربی میں: حبيب بن مسلمة ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
معلومات شخصیت
پیدائش 610ء کی دہائی  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مکہ   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 662ء (51–52 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت سلطنت امویہ   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ عسکری قائد   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عسکری خدمات
وفاداری خلافت راشدہ اور دولت امویہ
شاخ خلفائے راشدین اور معاویہ بن ابو سفیان کی فوج.
عہدہ جرنیل   ویکی ڈیٹا پر (P410) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کمانڈر شام کی اسلامی فتح
جزیرہ فرات، آرمینیا اور روم کی فتوحات

حبیب بن مسلمہ فہری قریشی، کنیت: ابو عبد الرحمن تھی۔ "حبیب دروب" اور "حبیب روم" کے لقب سے بھی مشہور تھے، اس لیے کہ وہاں بہت زیادہ سفر اور جہاد کیا ہے۔ پیغمبر اسلام کی صحبت بھی حاصل رہی ہے اور کچھ روایات بھی ہیں۔ ابوبکر صدیق کے زمانے میں جہاد میں شرکت کی، جنگ یرموک میں بھی شریک ہوئے اور دمشق میں سکونت اختیار کر لی۔ غزوہ تبوک میں ان کی عمر گیارہ سال تھی۔ عثمان بن عفان نے انھیں آرمینیا کے لشکر کا قائد بنایا تھا، پھر معاویہ بن ابو سفیان نے انھیں وہاں کا والی بنا دیا تھا، وہیں سنہ 42ھ میں وفات پائی۔[1]

نسب

[ترمیم]

حبیب بن مسلمہ بن مالک الاکبر بن وہب بن ثعلبہ بن وائلہ بن عمرو بن شیبان بن محارب بن فہر بن مالک بن نضر بن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان۔

سیرت

[ترمیم]

حبیب بن مسلمہ کی ولادت مکہ میں ہجرت مدینہ سے دو سال پہلے ہوئی، یعنی پیغمبر اسلام کی وفات کے وقت ان کی عمر بارہ سال تھی۔ اکثر مؤرخین اور علما کا خیال ہے کہ انھیں رسول اللہ کی صحبت حاصل رہی ہے، مگر ان کے ساتھ کسی غزوہ میں شریک نہیں ہوئے پیں۔

حبیب بن مسلمہ کا شمار قریش کے اشراف میں ہوتا تھا، بڑے بہادر اور قائد صفت انسان تھے، بعض مؤرخین انھیں شجاعت و قیادت میں خالد بن ولید اور ابو عبیدہ بن الجراح کے درجے میں شمار کرتے ہیں۔ بچپن ہی سے بہادری، جنگ، تلوار بازی اور شہ سواری پر تربیت پائی تھی۔ اسلام میں اپنی پوری زندگی جہاد اور اسلامی فتوحات میں گزار دی۔[2]

فتوحات

[ترمیم]

ابوبکر صدیق کے عہد خلافت میں جہاد کے لیے شام روانہ ہوئے، جنگ یرموک میں لشکر میں ایک فوجی کی حیثیت سے شریک رہے۔ عمر بن خطاب کے زمانے میں ابو عبیدہ بن الجراح نے اپنی شام کی ولایت میں انطاکیہ کا عامل بنایا تھا۔ جب عیاض بن غنم نے جزیرہ فرات کو فتح کیا تو اس کے لشکر میں شریک تھے۔ پھر عمر بن خطاب نے انھیں سراقہ بن عمرو کے ساتھ آرمینیا میں مدد کرنے کا حکم دیا، چنانچہ ان کے ساتھ مل کر آرمینیا اور قفقاز کو فتح کیا، پھر جب عثمان بن عفان کے زمانہ میں اسلامی حکومت کے ہاتھ نکلا تو دوبارہ اسے فتح کیا۔[3]

صفات

[ترمیم]

مؤرخین کا اس بات اتفاق ہے کہ اہل شام حبیب بن مسلمہ سے بہت محبت اور تعریف کرتے تھے۔ مستجاب الدعوات (جن کی دعا قبول ہوتی ہے) سمجھے جاتے تھے۔ معاویہ بن ابو سفیان کو ہمیشہ خلفائے راشدین کی سیرت اختیار کرنے کا مشورہ دیتے اور انھیں سمجھاتے تھے، معاویہ ان سے بہت ڈرتے تھے۔ ابن عساکر نے نقل کیا ہے کہ جب معاویہ کو حبیب بن مسلمہ کی وفات کی خبر پہنچی تو انھوں نے سجدہ شکر ادا کیا۔[4]

وفات

[ترمیم]

ان کی وفات کے تعلق سے مؤرخین کا اختلاف ہے۔ چنانچہ مؤرخ بلاذری نے فتوح البلدان میں لکھا ہے کہ عثمان بن عفان نے انھیں شام بھیجا تو وہاں حمص قیام پزیر ہوئے، پھر معاویہ بن ابو سفیان نے انھیں دمشق بھیج دیا، وہیں سنہ 42ھ میں 35 سال کی عمر میں وفات پائی۔ ابن عبد البر نے لکھا ہے کہ معاویہ بن ابو سفیان نے انھیں آرمینیا کا والی بنا دیا تھا، ان کی وفات وہیں سنہ 42ھ میں ہوئی۔ ابن سعد اور ابن عساکر بھی یہی کہتے ہیں۔[5]

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. "تيسير الكريم المنان في سيرة عثمان بن عفان رضي الله عنه - شخصيته وعصره، د. [[علي الصلابي|علي محمد الصلابي]]، الفصل الخامس، مؤسسة الولاة في عهد عثمان، صـ 249"۔ 26 مئی 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 اپریل 2020 
  2. أشهر مشاهير الإسلام في الحروب والسياسة 1:870
  3. أشهر مشاهير الإسلام في الحروب والسياسة 1:871
  4. أشهر مشاهير الإسلام في الحروب والسياسة 1:881
  5. أشهر مشاهير الإسلام في الحروب والسياسة 1:882