حفیظ الرحمان واصف دہلوی | |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
مدرسہ امینیہ کے چوتھے مہتمم | |||||||
مدت منصب ستمبر 1955ء تا 1979ء | |||||||
| |||||||
معلومات شخصیت | |||||||
تاریخ پیدائش | 10 فروری 1910ء | ||||||
تاریخ وفات | 13 مارچ 1987ء (77 سال) | ||||||
والد | کفایت اللہ دہلوی | ||||||
عملی زندگی | |||||||
مادر علمی | مدرسہ امینیہ | ||||||
پیشہ | خطاط ، شاعر ، مفتی | ||||||
پیشہ ورانہ زبان | اردو | ||||||
درستی - ترمیم |
حفیظ الرحمان واصف دہلوی (1910ء – 1987ء) ایک بھارتی عالم، مفتی، ادبی نقاد اور اردو زبان کے شاعر تھے، جنھوں نے 1955ء سے 1979ء تک مدرسہ امینیہ کے مہتمم کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ وہ تحریک آزادی ہند میں شریک تھے اور ’’جمعیۃ علما پر ایک تاریخی تبصرہ‘‘، ’’ادبی بھول بھلیّاں‘‘، ’’اردو مصدر نامہ‘‘ اور ’’تذکرۂ سائل‘‘ جیسی کتابوں کے مصنف ہیں۔ انھوں نے اپنے والد کفایت اللہ دہلوی کے مجموعۂ فتاوٰی کو ’’کفایت المفتی‘‘ کے نام سے نو جلدوں میں مرتب کیا۔
حفیظ الرحمان واصف دہلوی 10 فروری 1910ء کو شاہجہاں پور میں پیدا ہوئے تھے۔[2] وہ مفتی اعظم ہند کفایت اللہ دہلوی کے بڑے بیٹے تھے۔[2][3] انھوں نے مدرسہ امینیہ میں اپنے والد کفایت اللہ دہلوی اور خدا بخش اور عبد الغفور عارف دہلوی سمیت کئی اساتذہ سے تعلیم حاصل کی۔[4] انھوں نے حامد حسین فرید آبادی اور منشی عبد الغنی سے اسلامی خطاطی کی تعلیم حاصل کی۔[5]
واصف ایک خطاط، ادبی نقاد، شاعر اور مفتی تھے۔[6][7] 15 سال کی عمر میں انھوں نے فارسی میں شاعری شروع کردی تھی۔ اردو میں ان کی ابتدائی شاعری حکیم اجمل خان کے بارے میں ایک مرثیہ تھی، جو الجمعیت کے 22 جنوری 1928ء کے ایڈیشن میں شائع ہوئی تھی۔[8] انھوں نے غزل، نظم، قصیدہ، مسدس اور اردو شاعری کی دیگر انواع میں لکھا۔[8] وہ شاعری میں سائل دہلوی اور نوح ناروی کے شاگرد تھے۔[9][10] جمیل مہدی کہتے ہیں:
” | جگر مراد آبادی کے بعد مولانا واصف ہی اردو کے ایسے شاعر تھے، جو خوش نویسی میں بھی یدِ طُولٰی رکھتے تھے اور جن کے بارے میں کہا جا سکتا تھا کہ اگر وہ شاعر نہ ہوتے تو بہت بڑے خطاط اور خوش نویس ہوتے۔ انھوں نے خوش نویسی نہ صرف اپنے والد سے ورثہ میں پائی تھی؛ بلکہ مشق اور محنت کے ذریعہ اس میں استادانہ مہارت بھی حاصل کی تھی۔[7] | “ |
واصف نے اپنے پیشہ وارانہ زندگی کا آغاز عربی زبان و ادب کے حکومت دہلی کے محکمہ تعلیم میں کیا۔[1] 1936ء میں ان کے والد نے انھیں کتب خانہ رحیمیہ کا ناظم بنایا۔[1] انھیں 1953ء میں مدرسہ امینیہ کا نائب مہتمم بنایا گیا۔[1] وہ ستمبر 1955ء میں مہتمم بنے اور 1979ء میں اہتمام سے استعفی دے دیا۔[11] انھوں نے تحریک آزادی ہند میں بھی حصہ لیا۔[12][13] ان کا انتقال 13 مارچ 1987ء کو دہلی میں ہوا۔[3]
واصف نے اپنے والد کفایت اللہ دہلوی کی طرف سے جاری کردہ مجموعۂ فتاوٰی کو "کفایت المفتی" کے نام سے نو جلدوں میں مرتب کیا۔[14] پاکستانی مورخ ابو سلمان شاہجہانپوری نے اسے ان کا بڑا علمی، سیاسی، مذہبی اور زندہ کام قرار دیا ہے۔[2] واصف کے دیگر کاموں میں یہ بھی شامل ہیں:[15]