خدیجہ مستور | ||
---|---|---|
خدیجہ مستور خدیجہ مستور | ||
ادیب | ||
ولادت | 11 دسمبر 1927 ء، بلسہ، بریلی، برطانوی ہندوستان | |
وفات | 26 جولائی 1982 ءلندن، تدفین: لاہور | |
اصناف ادب | ناول | |
تعداد تصانیف | افسانوں کے پانچ مجموعے شائع ہوئے جن کی تفصیل کچھ یوں ہے۔(1) کھیل 1944ء (2) بوچھار 1946ء (3) چند روز اور 1951ء (4) تھکے ہارے 1962ء (5) ٹھنڈا میٹھا پانی 1981 خدیجہ مستور کے دو ناول بھی چھپ کر منظر عام پر آئے پہلا ناول ’’آنگن‘‘ تھا جو 1962ءمیں چھپ کر سامنے آیا ،اس ناول پر انھیں آدم جی ادبی انعام سے نوازا گیا۔ جب کہ دوسرا ناول ’’زمین‘‘ ان کی وفات کے 1983ء میں شائع ہوا۔ | |
معروف تصانیف | آنگن |
خدیجہ مستور (ولادت: 11 دسمبر، 1927ء - وفات: 26 جولائی، 1982ء) پاکستان سے تعلق رکھنے والی اردو کی مشہور و معروف ناول نگار و افسانہ نگار تھیں جو اردو ادب کی بے حد مقبول شخصیات میں سے ایک تھیں ۔[1]خدیجہ اپنے ناول آنگن کی وجہ سے دنیائے ادب میں شہرت رکھتیں ہیں جس پر ہم ٹی وی کی طرف سے ڈراما بھی بنایا گیا ۔[2][3] ان کی چھوٹی بہن ہاجرہ مسرور بھی ایک ناول نگار و افسانہ نگارتھیں جبکہ شاعر، ڈراما نگار اور کالم نگار خالد احمد ان کے چھوٹے بھائی تھے۔[4][5][6][7]
خدیجہ کے والد سید طہور احمد خان برطانوی فوج میں طبیب تھے۔ان کا انتقال دل کا دورہ پڑنے کی وجہ سے ہوا۔ خدیجہ 1947ء میں پاکستان کی آزادی کے بعد اپنے خاندان کے ساتھ ہجرت کی اور لاہور میں مقیم ہوئیں۔[8]
خدیجہ مستور 11 دسمبر، 1927ء کو بلسہ، بریلی، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئیں۔ [9]ان کے والد کا نام ڈاکٹر طہور احمد خان تھا[10] وہ سرکاری ملازم تھے ،ملازمت کی وجہ سے مختلف شہروں اور قصبوں میں اُن کا تبادلہ ہوتا رہا جس کی وجہ سے وہ صحیح معنوں میں بچوں کی تعلیم و تربیت پر توجہ نہ دے سکے۔ خدیجہ کی والدہ کا نام انور جہاں تھا، وہ ایک پڑھی لکھی خاتون تھیں،اکثر اُن کے مضامین خواتین کے مختلف رسالوں میں چھپتے تھے۔ اُن کی دیکھا دیکھی بچوں میں بھی ادبی رجحانات پیدا ہوئے۔ چھوٹی عمر میں ہی خدیجہ کے والد صاحب کا انتقال ہو گیا ،جس کی وجہ سے اُن کے خاندان کو بے حد مشکلات پیش آئیں۔ کچھ عرصہ بمبئی میں قیام رہا۔تقسیم ہند کے بعد پاکستان آگئیں اور لاہور میں مستقل قیام پزیر ہوئیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ خدیجہ کا خاندان ہجرت کے وقت انتہائی بے سروسامانی کی حالت میں تھا ایسے کڑے وقت میں احمد ندیم قاسمی نے ان کی مدد کی۔1950ء میں خدیجہ کی شادی مشہور افسانہ نگار احمد ندیم قاسمی کے بھانجے ظہیر بابر سے ہوئی جو صحافت کے پیشے سے منسلک تھے۔ خدیجہ نے شادی کے بعد بڑی پُر سکون زندگی گزاری۔ دونوں میاں بیوی میں بے حد محبت تھی۔ دونوں ایک دوسرے کا بے حد خیال رکھتے تھے۔
خدیجہ کے افسانوں کے پانچ مجموعے سامنے آئے۔ جن میں بوچھاڑ اور چندر روز اور شامل ہیں۔ 1962ء میں اپنے شہرہ آفاق ناول آنگن پر آدم جی ادبی انعام ملا۔ جب کہ اُن کے افسانوں کے آخری مجموعے ٹھنڈا میٹھا پانی پر انھیں ہجرہ ایوارڈ سے نوازا گیا۔
خدیجہ کا پہلا افسانہ کب منظر عام پر آیا ،اس کے بارے میں کہنا کچھ مشکل ہے تاہم اُن کے مطبوعہ افسانوں کا اولین سراغ دلّی کے رسالے ساقی سے ملتا ہے۔ اس رسالے نے اُردو افسانے کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس کے علاوہ اُن کے افسانے لاہور کے رسالے عالم گیر، ہفت روزہ خیام اور ادب لطیف میں بھی شائع ہوتے رہے ہیں۔ ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ ساقی کے اپریل 1944ء کے شمارے میں دونوں بہنوں ہاجرہ مسرور اور خدیجہ مستور کے افسانے بیک وقت شائع ہوئے۔ ساقی میں افسانوں کی اشاعت سے دونوں بہنوں کا نام ادبی حلقوں میں شہرت پانے لگا ۔
ایک خاتون ہونے کے ناطے قدرتی طور پر خدیجہ کی ہمدردیاں عورت کے ساتھ ہیں۔ اُن کے افسانوں کے پہلے مجموعے کھیل کا پہلا افسانہ عورت کی وفا اور مردکی بے وفائی کے پس منظر میں ہے اور اتفاق دیکھیں کہ ان کا آخری افسانہ بھروسہ بھی اسی موضوع پر ہے۔ خواتین کی حیثیت، نفسیات اور مسائل اُن کا پسندیدہ موضوع ہے۔
خدیجہ مستور کو ان کے ناول آنگن پر 1962ء میں آدم جی ادبی انعام دیا گیا۔[11]
خدیجہ مستور 26 جولائی 1982ء کو لندن میں وفات پاگئیں۔ وہ لاہور میں گلبرگ کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئیں۔[9]