خرقہ: کسی صوفی کے موٹے جھوٹے اونی لبادے کو خرقہ کہتے ہیں اسے تصوف میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
(خَرَقَ۔ پھاڑنا) پھاڑنا، پرانا جامہ، پرانا کپڑا، پیوند لگا ہوا لباس، پیوند لگا ہوا کپڑا، درویشانہ لباس، درویشوں کا لباس، فقیروں کی پوشاک
چیتھڑا، دلق، گدڑی، مرقّع[1]
کپڑے کا پھٹا ہوا ٹکڑا۔ کسی صوفی کا موٹا جھوٹا اونی لبادہ۔ لباس درویشی۔ صوفی کے فقر و قناعت کی ظاہری نشانی اونی کپڑے کے ٹکڑوں کا چغہ۔ عموماً نیلے یا سیاہ رنگ کا ہوتا ہے۔ اور تصوف کی اصطلاح میں ایک ظاہری علامت ہے جس سے فقر اور درویشی کا اظہار ہوتا ہے۔ اکثر صوفیائے کرام نے اس قسم کا لباس پہننے سے گریز کیا ہے۔ ان کے نزدیک خرقہ پوشی اگر رضائے الہی کے لیے ہے تو بے فائدہ ہے کیونکہ خدا باطن کا حال بہتر جانتا ہے۔ اور اگر یہ انسانوں کو دکھانے کے لیے ہے تو بھی مہمل ہے۔ اگر درویش کا موقف تلاش حق ہے تو اسے ظاہری خرقے کی ضرورت نہیں۔ بقول علی ہجویری داتا گنج بخش‘‘ ظاہری لباس کی بجائے باطنی حرارت صوفی کو بناتی ہے۔ اس نظریے کے باوجود خرقہ پوشی کی رسم عموما اختیار کی گئی ہے۔ خرقہ صوفی کو تین برس کی ریاضت اور مجاہدے کے بعد ملتا ہے جو مرید اپنے شیخ یا پیر کی خدمت میں حاضر رہ کر انجام دیتا ہے۔ اس مدت کے گزرنے کے بعد خرقہ پوشی کی رسم ادا کی جاتی ہے۔ خرقہ دو قسم کا ہوتا ہے۔ خرقۃ الارادہ اور خرقۃ التبرک پہلی قسم کا خرقہ افضل سمجھا جاتا ہے۔ عام زبان میں خرقے کو گودڑی کہتے ہیں۔
شاہ عبد العزیز لکھتے ہیں "کہ اس سورت میں خرقہ پوشی کے لوازم و شروط بیان ہوئی ہیں۔" گویا یہ سورت اس شخص کی سورت ہے جو درویشوں کا خرقہ پہنے اور اپنے تئیں اس رنگ میں رنگے۔ لغت عرب میں "مزمل" اس شخص کو کہتے ہیں جو بڑے کشادہ کپڑے کو اپنے اوپر لپیٹ لے۔ اور آنحضرت ﷺ کا معمول ایسا تھا کہ جب نماز تہجد اور قرآن شریف کی تلاوت کے لیے رات کو اٹھتے تھے تو ایک کمبل دراز اوڑھ لیتے تھے تاکہ سردی سے بدن محفوظ رہے اور وضو و نماز کی حرکات میں کسی طرح کا حرج واقع نہ ہو۔[2]
مزمل عرب میں اسے کہتے ہیں جو چادرے میں لپٹا ہو یا چادرا اوڑھے ہو آنحضرت ﷺ کے پاس چودہ ہاتھ کا لمبا ایک کمبل تھا۔ تہجد کی نماز اور تلاوت کے لیے جب اٹھتے تو اسی کو اوڑھ لیتے تھے تاکہ نماز میں اٹھنے بیٹھنے میں حرج نہ ہو، وضو آسان ہو، ہوا سرد سے محافظت ہو۔ اور نیز اس قسم کی چادر اوڑھنا یا لپیٹ لینا کفن لپیٹنے کی طرف اشارہ ہے تاکہ نفس ہر وقت موت سے آگاہ رہے اور رات کی اندھیری قبر کی اندھیری اور دنیا کے عدم کی ظلمت سے مشابہت رکھتی ہے اس لیے حضرات انبیا علیہم السلام اس قسم کا کپڑا اوڑھتے تھے خصوصاً حضرت ابراہیم و موسیٰ و عیسیٰ علیہم السلام اور ہمیشہ سے صلحا کا یہ لباس رہا ہے اور اسی لیے فقراء میں خرقہ پوشی ایک سنت چلی آتی ہے اور یہ لباس اس بات کی علامت ہے کہ اس کے اوڑھنے والے نے ترک دنیا و عبادت مولیٰ کا التزام کر لیا ہے جیسا کہ وردی سپاہیوں کی علامت ہے۔ اس خرقہ کے لیے سات شرطیں ہیں۔
اور اس کے ساتھ ان کی خیرخواہی سے بھی غافل نہ رہنا۔ جس میں یہ سات باتیں ہوں اس پر یہ خرقہ زیبا ہے اور اسی لیے اس خرقہ کی شروط بجا لانے کی وجہ سے آنحضرت ﷺ کو مزمل کا خطاب عطا ہوا جو بڑا پیارا خطاب ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ ادا حضرت حق کو پسند آگئی تھی اس لیے فرماتا ہے یا ایہا المزمل کہ اے چادر اوڑھے ہوئے ! اس چادر ریاضت کا حق بجا لا۔ قم الیل رات بھر نماز و تلاوت کے لیے قائم اور مستعد و سرگرم رہ۔[3] یایھا المزمل ‘‘۔ خطاب رسول اللہ ﷺ سے ہے۔ آپ حالت غم میں کپڑے اوڑھ لپیٹ کر لیٹ رہے تھے۔ ملاطفت خاص کے طور پر آپ ﷺ کو مخاطب بھی اسی نام سے کیا گیا۔ بعض صوفیوں نے اپنے ہاں کی خرقہ پوشی کی سند بھی اس لفظ مزمل سے حاصل کی ہے۔ شب بیداری کا معمول بھی مشائخ وصوفیہ نے انھیں آیتوں سے نکالاہے۔[4]
ام المؤمنین میمونہ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے غسل جنابت کے لیے پانی رکھا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے دو یا تین مرتبہ اپنے دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر پانی ڈالا۔ پھر شرمگاہ دھوئی۔ پھر ہاتھ کو زمین پر یا دیوار پر دو یا تین بار رگڑا۔ پھر کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا اور اپنے چہرے اور بازوؤں کو دھویا۔ پھر سر پر پانی بہایا اور سارے بدن کا غسل کیا۔ پھر اپنی جگہ سے سرک کر پاؤں دھوئے۔ میمونہ (رض) نے فرمایا (فَأَتَيْتُهُ بِخِرْقَةٍ فَلَمْ يُرِدْهَا)کہ میں ایک کپڑا لائی تو آپ ﷺ نے اسے نہیں لیا اور ہاتھوں ہی سے پانی جھاڑنے لگے[5]۔ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَرَضِهِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ عَاصِبٌ رَأْسَهُ بِخِرْقَةٍ فَقَعَدَ عَلَی الْمِنْبَرِ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَی عَلَيْهِ ابن عباس روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اپنے مرض میں جس مرض میں آپ نے وفات پائی ہے، اپنا سر ایک پٹی سے باندھے ہوئے باہر نکلے اور منبر پر بیٹھ گئے، پھر اللہ کی حمد وثنا کے بعد فرمایا[5] معاویہ سے روایت ہے کہ انھوں نے فرمایا اے لوگو! رسول کریم ﷺ نے منع فرمایا ہے تم کو زور سے۔ (وَجَاء بِخِرْقَةٍ سَوْدَاء)پھر آپﷺنے ایک سیاہ رنگ کے کپڑے کا ٹکڑا نکالا اور فرمایا یہی زور ہے اور کوئی عورت اس کو اپنے سر میں رکھ کر سر پر اوپر سے دوپٹہ اوڑھ لیتی ہے۔[6] اللہ کی قسم میں تو البتہ حاملہ ہوں آپﷺ نے فرمایا اچھا اگر تو واپس نہیں جانا چاہتی تو جا یہاں تک کہ بچہ جن لے۔(فَلَمَّا وَلَدَتْ أَتَتْهُ بِالصَّبِيِّ فِي خِرْقَةٍ) جب اس نے بچہ جن لیا تو وہ بچہ کو ایک کپڑے میں لپیٹ کرلے آئی اور عرض کیا یہ میں نے بچہ جن دیا ہے آپ ﷺ نے فرمایا جا اور اسے دودھ پلا۔[7]
شہاب الحق سہرودی عوارف المعارف شریف میں فرماتے ہیں : واعلم ان الخرقۃ خرقتان خرقۃ الارادۃ وخرقۃ التبرک والاصل الذی قصدہ المشایخ للمریدین خرقۃ الارادۃ وخرقۃ التبرک تشبہ بخرقۃ الارادۃ فخرقۃ الارادۃ للمرید الحقیقی وخرقۃ التبرک للمتشبہ ومن تشبہ بقوم فھومنہم۔ واضح ہو کہ خرقے دو ہیں : خرقہ ارادات و خرقہ تبرک، مشائخ کا مریدوں سے اصل مطالعہ خرقہ ارادت ہے اور خرقہ تبرک کو اس سے مشابہت ہے تو حقیقی مرید کے لیے خرقہ ارادت ہے اور مشابہت چاہنے والوں کے لیے خرقہ تبرک اور جو کسی قوم سے مشابہت چاہے وہ انہی میں ہے۔[8] اماخرقۃ التبرک فیطبلھا من مقصودہ التبرک بزی القوم ومثل ھذا لایطالب بشرائط الصحۃ بل یوصی بلزوم حدود الشرع و مخالطۃ ھذا الطائفۃ لتعود علیہ برکتہم ویتادب بادابہم فسوف یرقیہ ذٰلک الی الاھلیۃ الخرقۃ الارادۃ فعلی ھذہ خرقۃ التبرک مبذولۃ لکل طالب وخرقۃ الارادۃ ممنوعۃ الامن الصادق الراغب۔ جو شخص خرقہ تبرک کاخواہاں ہے تو اس کا مقصود صرف یہ ہے کہ وہ صوفیائے کے اس لباس سے برکت حاصل کرے اس کے لیے وہ تمام شرائط مخلوق نہیں رکھے جاتے جو خرقۃ وارادت کے لیے ضروری ہیں بلکہ صرف اتنا کہیں گے کہ شریعت کا پابند رہ اور اولیاء کی صحبت اختیار کر کہ شاید اس کی برکت اسے خرقہ ارادت کااہل کر دے یہی وجہ ہے کہ خرقہ تبرک تو ہر طالب حقیقت کو دیا جاسکتاہے مگر خرقہ ارادت صرف طلب صادق کے لیے مخصوص ہے۔[9]
شاہ ولی اللہ کتاب الانتباہ فی سلاسل اولیاء اللہ میں لکھتے ہیں : ایں فقیر خرقہ از شیخ ابو طاہر کردی پوشیدہ وایشاں بعمل آنچہ درجواہر خمسہ است اجازت دادند۔ اس فقیر نے شیخ ابو طاہر کردی جسے خرقہ پہنا اور انھوں نے جواہر خمسہ میں جو کچھ ہے اس کے عمل کی اجازت دی۔[10]
بزرگ خرقہ پہننے كے عمل كو مبارك سمجھتے ہيں شيخ اكبر محی الدين ابن عربی نے خرقہ كے حصول پر ايك رسالہ نسب الخرقہ كے نام سے لكھا ہے۔