داستان گوئی ایک فن ہے جس میں داستان کو لوگوں کے سامنے سنایا جاتا ہے۔ اس فن کا تعلق 13ویں صدی سے ہے۔ داستان نثری افسانوی ادب ہے۔ اس میں کہانی کو ممکن حد تک طول دیا جاتا ہے۔ قصے در قصے بیان کیے جاتے ہیں۔ ان قصوں کی بنیاد خیال آرائی پر ہوتی ہے۔ داستان درحقیقت مافوق الفطرت کہانیوں کے مجموعے کا نام ہے۔ فارسی طرز کی داستان گوئی کی ابتدا 16ویں صدی میں ہوئی لیکن دھیرے دھیرے یہ فن ختم ہوتا گیا۔ تاہم سنہ 2005ء میں اس فن کا دوبارہ احیا کیا گیا اور ہندوستان اور بیرون ہند میں داستان گوئی کے سینکڑوں جلسے منعقد کیے گئے۔ مطبوعہ داستان کے اولین نمونوں میں داستان امیر حمزہ ہے جو 46 جلدوں میں شائع ہوئی تھی۔
برصغیر ہند میں یہ فن 19ویں صدی میں اپنے عروج پر پہنچا اور میر باقر علی داستان گو کی موت کے ساتھ یہ بھی مرگیا۔ ہندوستانی شاعر اور نقاد شمس الرحمان فاروقی اور ان کے بھتیجے، کاتب اور ڈائرکٹر محمود فاروقی نے 21ویں صدی میں اس کے احیا کے لیے کا رہائے نمایاں انجام دیے ہیں۔
داستان گوئی کا سب سے مرکزی کردار داستان گو ہے۔ جس کی آواز ہی ایک آرٹ ہے۔ وہ کہانی میں اپنی آواز کا جادو شامل کرکے داستان کی اثر انگیزی کو بام عروج تک پہنچا دیتا ہے۔ 19ویں صدی کے ممتاز داستان گو میں امبا پرساد رسا، میر احمد علی رامپوری، محمد عامر خان، سید حسین جاہ اور غلام رضا ہیں۔
داستان گوئی ایک فارسی لفظ ہے۔ داستان کہتے ہیں کہانی کو اور گو کا مطلب ہے کہنے والا یا سنانے والا چنانچہ داستان گو کے معنی ایسا شخص جو داستان سنائے۔
ہندوستانی داستان گوئی کو درباری داستان گوئی یا ہندوی داستان گوئی بھی کہتے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ 13ویں صدی کے ادیب اور شاعر امیر خسرو کے شیخ مشہور صوفی نظام الدین اولیاء ایک مرتبہ بیمار پڑے تو امیر خسرو نے ان کی طبیعت بہلانے کے لیے قصہ چہار درویش/ باغ و بہار اور الف لیلہ و لیلہ کی کہانیوں کے مجموعے ان کو سنائے۔ جب تینوں کہانیاں ختم ہوگئیں تو نظام الدین اولیا بالکل ٹھیک ہو گئے اور فرمایا کہ جو بیمار ان تین کہانیوں کو سن لے تو شفایاب ہوگا۔
ماہر بشریات غوث انصاری کے مطابق داستان گوئی کی جڑیں قبل از اسلام عرب سے ملتی ہیں۔ پھر اسلام کی اشاعت نے اس فن کو ایران تک تک پہنچایا اور ایران والے ہندوستان دہلی لے کر آئے۔ 1857ء کی بغاوت کے بعد جب لوگ دہلی سے لکھنؤ پہنچے تو دوسری اصناف ادب کے ساتھ ساتھ داستان گوئی بھی لکھنؤ گئی۔
داستان گوئی لکھنؤ کیا گئی مانو اپنے پیا کے گھر پہنچ گئی۔ وہاں اس کو خوب سراہا گیا۔ داستان گوئی کے جلسے چوراہوں، گلی محلوں، گھروں اور افیم خانوں میں ہونے لگے۔ غوث انصاری لکھتے ہیں: "نشئیوں کے درمیان میں داستان گوئی اتنی مشہور ہوئی کی ان کے اجتماع کا اہم حصہ سمجھی جانے لگی۔" ان کے دماغ پر افیم کے نشے کے ساتھ ساتھ داستان گوئی کا نشہ بھی چڑھنے لگا اور دونوں نشے عموماً ایک ساتھ افیم خانوں میں کیے جاتے تھے۔ ہر افیم خانہ کا ایک داستان گو ہوتا تھا جو سامعین کو محظوظ کرتا تھا۔ ہر امیر گھرانے کے عملے میں ایک داستان گو ضرور ہوتا تھا۔ لکھنؤ کے 19ویں صدی کے تاریخ داں اور مصنف عبد الحلیم شرر لکھتے ہیں کہ داستان گوئی کا فن جنگ، خوشی، خوبصورتی، محبت اور دھوکا جیسی سرخیوں میں منقسم تھا۔
پرانے داستان گو جادو، جنگ اور مہم جوئی کی داستانیں سنایا کرتے تھے اور عربی کہانی جیسے الف لیلہ، کہانی نگار جیسے رومی اور کہانی و داستان کے مراجع جیسے پنچ تنتر سے کہانیاں مستعار لیا کرتے تھے۔ 14 ویں صدی سے فارسی داستان گوئی کا موضوع پیغمبر محمد کے چچا امیر حمزہ کی زندگی اور ان کے حیرت انگیز کارنامے ہونے لگے۔ ہندوستانی داستان گوئی میں عیاری دھوکا بھی شامل ہونے لگی۔
داستان گوئی کی روایت کو مختف زبانوں میں رواج دینے کی کوششیں ہوتی رہی ہیں۔ 2017ء کے کولکاتا عالمی کتاب میلہ میں ابھیشیک سرکار کی ایک ناول "داستان گوئی" کو ایک بنگالی ناشر ترتیو پریسر نے شائع کیا۔ یہ ناول ایک داستان گو کی 1990ء کی سیاسی گہماگہمی کے بعد آنے والے دنوں کی منظر کشی کرتا ہے۔ تین شہروں کولکاتا، علی گڑھ اور دہلی کے ادبی ماحول میں شاہ نامہ، حمزہ نامہ اور سکندر نامہ کی کہانیوں کی دنیا سجی رہتی ہے۔
16ویں صدی میں پنپنے والی داستان گوئی کی صنف کا سلسلہ ختم ہوئے زیادہ عرصہ نہیں بیتا۔ دلی کے آخری داستان گو میر باقر علی کا انتقال 1928ء میں ہوا لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ داستان گوئی کے قواعد کے بارے میں زیادہ کوئی علم موجود نہیں ہے۔[1] محمود فاروقی نے اپنے چچا شمس الرحمن فاروقی کے ساتھ مل کر داستان گوئی کے قدیم فن کو دوبارہ زندہ کیا ہے[2] [3][4][5][6]