دھاتی خصوصیات (Metallic properties) سے مراد چند وہ خصوصیات ہیں جو کسی عنصر (element) کو دھات ( metal) کا درجہ دیتی ہیں۔ جن عناصر میں یہ خصوصیات نہیں ہوتیں وہ غیر دھاتی عناصر (nonmetals) کہلاتے ہیں۔ دوری جدول (periodic table) میں دھاتوں اور غیر دھاتوں کے درمیان ایک تنگ پٹی میں چند دھات نما (metalloid) عناصر ہوتے ہیں جن میں دھاتوں کی کچھ خصوصیات ہوتی ہیں اور کچھ نہیں ہوتیں۔
کاربن کی ایک شکل (بہروپیت) گریفائٹ ہوتی ہے جس میں دھاتوں کی طرح چمک بھی ہوتی ہے اور اس میں سے بجلی بھی گذر سکتی ہے اس کے باوجود گریفائٹ کو دھات نہیں مانا جاتا۔
وزن سہارنے کی صلاحیت۔ مضبوط اشیا پر وزن ڈالنے سے ان کی شکل میں کوئی مستقل بگاڑ نہیں آتا۔
اگر ایک دھاتی رسی یا سلاخ سے وزن لٹکایا جائے تودھاتی رسی یا سلاخ کی لمبائی تھوڑی سی بڑھ جاتی ہے۔ وزن ہٹاتے ہی وہ دوبارہ سکڑ کر اپنی اصل لمبائی پر آ جاتی ہے۔ دھاتوں کی کھنچاو یا تناو (Tension) برداشت کرنے کی صلاحیت بہت زیادہ ہوتی ہے۔
سیمنٹ سے بنی اشیاء بہت وزن اٹھا سکتی ہیں مگر کھینچاو برداشت نہیں کر سکتیں۔ وزن اٹھانے کے لیے سمنٹ کی مضبوطی 2000psi ہوتی ہے لیکن کھینچاو کی صلاحیت صرف 400psi ہوتی ہے۔ یعنی سمنٹ سے اونچے ستون (column) تو بنائے جا سکتے ہیں مگرلمبے شہتیر (beam) نہیں بنائے جا سکتے۔ اس کے برعکس کاربن اسٹیل کی کھینچاو کی صلاحیت 56,000psi ہوتی ہے۔ اس لیے اگر بغیر لوہے کے سریہ (rebar) کے بیم (beam) بنائے جائیں تو وہ اپنے ہی وزن سے ٹوٹ سکتے ہیں۔ لیکن جب لوہے کے سریے ڈال کر بیم بنائے جاتے ہیں تو سریے سارا کھینچاو برداشت کر لیتے ہیں اور مزید وزن ڈالنے پر بھی بیم کو ٹوٹنے نہیں دیتے۔
ایلومینیئم میں اگر صرف 0.4 فیصد اسکینڈیئم ملا دیا جائے تو ایلومینیئم کی کھینچاو برداشت کرنے کی صلاحیت 30 فیصد بڑھ جاتی ہے۔ ایسے ایلومینیئم سے اسپورٹ سائیکلیں بنائی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ یہ ہوائی جہاز سازی میں بھی کثرت سے استعمال ہوتا ہے۔
سخت اشیاء پر رگڑ سے خراش ڈالنا بہت مشکل ہوتا ہے جیسے لوہا اور شیشہ۔ مگر سیسہ ایک ایسی نرم دھات ہے جس پر نوک دار لکڑی سے بھی خراش لگائی جا سکتی ہے۔
جن اشیاء پر خراش ڈالنا مشکل ہوتا ہے انھیں چاقو سے کاٹنا بھی مشکل ہوتا ہے۔ چاقو یا قینچی سے سیسے کی چادر کو کاٹا جا سکتا ہے۔
شیشہ سخت ہوتا ہے مگر انتہائی پھوٹک ہوتا ہے۔ لوہا سخت ہوتا ہے اور انتہائی غیر پھوٹک ہوتا ہے
ہیرے کا شمار دنیا کی سخت ترین اشیاء میں ہوتا ہے لیکن ہتھوڑے کی چوٹ سے ہیرا بھی ٹوٹ جاتا ہے۔[1]
خالص لوہا کافی نرم ہوتا ہے۔ لیکن صرف 0.3 فیصد کاربن کی ملاوٹ سے اس میں کافی سختی ا جاتی ہے۔ عام استعمال کے لوہے (اسٹیل) میں کاربن کی مقدار 0.3 سے 1.2فیصد تک ہوتی ہے۔ دو فیصد سے زیادہ کاربن لوہے کو بھی پھوٹک بنا دیتا ہے۔
heat treatment سے بھی لوہے کی سختی تبدیل کی جا سکتی ہے۔
اکثر دھاتوں میں چوٹ برداشت کرنے کی بڑی صلاحیت ہوتی ہے۔ ایسی دھاتوں کو جب ہتھوڑے سے چوٹ لگائی جاتی ہے تو ان کی شکل میں بگاڑ تو آتا ہے لیکن فوراً ہی خود بخود درست بھی ہو جاتا ہے۔
اس کے برعکس پھوٹک اشیاء چوٹ لگنے سے ٹوٹ جاتی ہیں۔
جو دھاتیں مضبوطی بھی رکھتی ہیں اور پلاسٹیسیٹی بھی وہ غیر پھوٹک ہوتی ہیں۔
وزن ڈالنے سے دھات کی شکل میں معمولی سا بگاڑ آتا ہے۔ لچک سے مراد دھاتوں کی وہ صلاحیت ہے جس کے باعث وہ بوجھ ہٹتے ہی دوبارہ اپنی اصل شکل اختیار کر لیتی ہیں۔
اگر کسی دھات کی شکل میں وزن یا قوت کے تحت مستقل تبدیلی آ جائے تواسے پلاسٹیسٹی کہتے ہیں۔ یہ مضبوطی کا الٹ ہوتی ہے۔
جب لوہے کو گرم سرخ کرتے ہیں تو اس میں پلاسٹیسٹی آ جاتی ہے اور اب ہتھوڑے کی چوٹ سے اس کی شکل تبدیل کر کے مختلف کارآمد اوزار بنائے جا سکتے ہیں۔
پلاسٹک حالت میں جب لوہے کی شکل مستقل طور پر تبدیل کی جاتی ہے تو اس میں کریک (cracks) نہیں آتے۔
پلاسٹیسٹی کا الٹ پھوٹک پن ہے۔ پھوٹک اشیاء کی شکل تبدیل کرنے پر اس میں کریک پڑ جاتے ہیں یا وہ دو ٹکڑے ہو جاتی ہے۔
جس دھات کے تار بنائے جا سکتے ہیں وہ دھات کھینچاو برداشت کر لیتی ہے اورآسانی سے موڑی جا سکتی ہے۔ ایسا کرنے پر اس میں کریک نہیں پڑتے۔
جس دھات کے ورق بنائے جا سکتے ہیں وہ دھات دباو برداشت کر سکتی ہے۔ یعنی ایسی دھات کو ہتھوڑے سے مار مار کر یا رولرز کے درمیان سے گزار کر پتلا کیا جا سکتا ہے۔ ایسا کرنے پر اس میں کریک نہیں پڑتے۔ پھوٹک اشیاء کبھی ورق پزیر نہیں ہو سکتیں۔[2]
سب سے زیادہ تار پزیر اور ورق پزیر دھات سونا ہے۔ اس کے بعد چاندی کا نمبر آتا ہے۔ سیسے میں تار پذیری بالکل نہیں ہوتی مگر تھوڑی بہت ورق پذیری ہوتی ہے۔ اگر سونے میں صرف 0.2 فیصد سیسہ موجود ہو تو ایسے سونے کے سکے پھوٹک ہو جاتے ہیں۔
سونے کا ورق اتنا باریک ہوتا ہے کہ اس میں سے ہرے رنگ کی روشنی گذر سکتی ہے۔ صرف ایک اونس سونے سے اتنا باریک تار بنایا جا سکتا ہے جو 50 میل لمبا ہو۔[3]
تانبا ایک بہترین تار پزیر دھات ہے مگر بسمتھ (bismuth) بالکل تار پزیر نہیں ہے۔ اگر تانبے میں صرف 0.005 فیصد بسمتھ موجود ہو تو تانبے کی تارپذیری بہت ہی کم ہو جاتی ہے۔[4] اسی طرح اگر تانبے میں فاسفورس کی نہایت قلیل مقدار موجود ہو تو ایسے تانبے میں سے حرارت کا گذرنا کافی کم ہو جاتا ہے۔[5]