راجندر سنگھ بیدی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 1 ستمبر 1915ء [1] سیالکوٹ |
وفات | 11 نومبر 1984ء (69 سال)[1] ممبئی |
شہریت | بھارت (26 جنوری 1950–) برطانوی ہند (–14 اگست 1947) ڈومنین بھارت (15 اگست 1947–26 جنوری 1950) |
اولاد | نریندر بیدی |
عملی زندگی | |
پیشہ | ڈراما نگار ، فلم ہدایت کار ، منظر نویس ، مصنف |
پیشہ ورانہ زبان | اردو [1] |
تحریک | ترقی پسند تحریک |
اعزازات | |
فلم فیئر اعزاز برائے بہترین مکالمہ (برائے:ستیہ کام ) (1971) ساہتیہ اکادمی ایوارڈ (برائے:ایک چادر میلی سی ) (1965)[2] فلم فیئر اعزاز برائے بہترین مکالمہ (برائے:مدھومتی ) (1959) پدم شری اعزاز برائے ادب و تعلیم |
|
IMDB پر صفحات | |
باب ادب | |
درستی - ترمیم |
راجندر سنگھ بیدی اردو کے مصنف، ڈراما نویس اور فلمی ہدایت کار تھے۔ وہ 1915ء کو سیالکوٹ پاکستان میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے ہہت سی مشہور بھارتی فلموں کی مکالمہ نگاری کی جیسے ابھیمان، انوپما اور بمل رائے کی مدھومتی شامل ہے۔ انھوں نے اپنی ابتدائی زندگی لاہور میں گزاری اور یہاں سے اردو میں تعلیم حاصل کی۔
اُن کی پہلی مختصر کہانی مہارانی کا تحفہ کو سال کی بہترین مختصر کہانی کا انعام لاہور کے ایک ادبی جریدے ادبی دنیا کی طرف سے ملا تھا۔ اُن کی مختصر کہانیوں کا پہلا مجموعہ دان و دام 1940ء میں منظرِ عام پر آیا اور دوسرا مجموعہ گرہن 1943ء میں شائع ہوا۔ اُن کا مشہور اردو ناول ایک چادر میلی سی کا انگریزی میں I Take This Women کے نام سے ترجمہ کیا گیا اور اس پر انھیں ساہتیا اکیڈمی ایوراڈ سے بھی 1965ء میں نوازا گیا۔ اُس کا بعد میں ہندی، کشمیری اور بنگالی میں بھی ترجمہ کیا گیا۔
سنہ 1915ء میں لاہور میں پیدا ہوئے اور 1984ء میں بمبئی میں انتقال ہوا۔ آبائی گاؤں "ڈلے کی" تحصیل ڈسکہ ضلع سیالکوٹ تھا۔ ان کی والدہ سیوا دیوی ہندو برہمن تھیں، جبکہ والد ہیرا سنگھ ذات کے کھتری اور مسلک کے اعتبار سے بیدی تھے۔ یہ خاندان وید کو اپنا گرنتھ ماننے کے باعث بیدی (ویدی) کہلاتا ہے۔ راجندر سنگھ بیدی نے 1931ء میں میٹرک کیا اور 1933ء میں انٹر پاس کیا۔ اس کے بعد محکمہ ڈاک میں کلرک ہو گئے۔ 1934ء میں سوماوتی عرف ستونت کور سے شادی ہوئی۔ 1943ء میں وہ ملازمت سے مستعفی ہوئے۔ 1947ء میں لاہور سے دہلی پہنچے، 1948ء میں تقریباً آٹھ ماہ جموں ریڈیو اسٹیشن کے ڈائریکٹر رہے۔ وہ 1949ء میں ممبئی آ گئے اور فلموں کے لیے مکالمے لکھنے لگے۔
بیدی کی ادبی زندگی کا آغاز 1932ء مین ہوا۔ ابتدا میں انھوں نے محسن لاہوری کے نام سے انگریزی اور اردو میں نظمیں اور افسانے لکھے جو کالج میگزین اور مقامی اخبارات میں شائع ہوئے۔ راجندر سنگھ بیدی کے نام سے پہلا افسانہ "دکھ دکھ" فارسی رسم الخط میں پنجابی زبان کے رسالے "سارنگ" میں شائع ہوا۔
ان کے افسانوں کے مجموعوں میں باسٹھ افسانے اور سات مضامین اور خاکے شامل ہیں۔ سات مضامین اور سات افسانے ایسے بھی ہیں جو کسی کتاب میں شامل نہیں۔ بیدی نے تقریباً ستر فلموں کے مکالمے لکھے۔ ان میں بری بہن، داغ، مرزا غالب، دیو داس، ستیہ کام اور ابھیمان کے مکالمے اپنی ادبیت اور کردار و ماحول شناسی کی بنا پر سراہے گئے۔ بیدی نے فلم ساز کی حیثیت سے گرم کوٹ، رنگولی، بھاگن اور آنکھیں نامی فلمیں بنائیں۔ دستک کو اعلیٰ فنی خوبیوں کی بنا پر 1970ء کا قومی ایوارڈ دیا گیا۔
راجندر سنگھ بیدی اپنے عہد کے بڑے اور صاحبِ طرز ادیب تسلیم کیے گئے۔ بعض لوگوں کے خیال میں وہ ترقی پسند نسل کے سب سے بڑے افسانہ نگار ہیں۔ ان کے فن پاروں میں متوسط طبقے کے متنوع کرداروں، ان کے رنگا رنگ ماحول، ان کے مابین انسانی رشتوں کے اتار چڑھاؤ سے ایک جہانِ معنی خلق ہوا ہے۔ بیدی کے افسانوں اور ناولوں میں متوسط اور نچلے متوسط طبقے کی ہندوستانی عورت کے کردار اور مزاج کی جو تصویر کشی ملتی ہے اس کو ان کی افسانہ نگاری کا نقطہ عروج کہا جاتا ہے۔
ایک چادر میلی سی (1962ء، دہلی)
دستک (1971، دہلی، دیوناگری رسم الخط)
1955ء میں انھوں نے اپنی ہی ایک مختصر کہانی گرم کوٹ پر ایک بلراج ساہنی اور نروپا رائے کے ساتھ بنائی۔ ان کی دوسری فلم رنگولی 1962ء میں کشور کمار اور وجنتی مالا کے ساتھ تھی۔ انھوں نے ہدایت کاری کا آغاز سنجیو کمار اور ریحانہ سلطان کے ساتھ فلم دستک سے کیا۔ اس کے بعد انھوں نے تین اور فلموں کی ہدایت کاری کی۔ ان کے ناول ایک چادر میلی سی پر بھارت میں 1986ء میں اسی نام سے اور پاکستان میں مٹھی بھر چاول کے نام سے 1978ء میں فلم بنی۔ اس طرح ان کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کی اُن کی کہانی پر دونوں ممالک میں فلم بنی ہے۔
ان کا 1984ء میں ممبئی بھارت میں انتقال ہو گیا۔
ان کی خدمات کے صلے میں بھارتی حکومت نے ان کے نام سے ایک انعام راجندر سنگھ بیدی ایوارڈ اردو ادب کے لیے شروع کیا ہے۔