رضوان اختر

رضوان اختر
مناصب
ڈائریکٹر جنرل انٹر سروسز انٹیلی جنس   ویکی ڈیٹا پر (P39) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
برسر عہدہ
7 نومبر 2014  – 11 دسمبر 2016 
ظہیر الاسلام  
نوید مختار  
نیشنل ڈیفینس یونیورسٹی، پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P39) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
برسر عہدہ
11 دسمبر 2016  – 9 اکتوبر 2017 
معلومات شخصیت
مقام پیدائش پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی نیشنل ڈیفینس یونیورسٹی، پاکستان
ریاست ہائے متحدہ وار کالج   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ فوجی افسر   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عسکری خدمات
شاخ آئی ایس آئی   ویکی ڈیٹا پر (P241) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عہدہ لیفٹیننٹ جنرل
ڈی جی رینجر سندھ   ویکی ڈیٹا پر (P410) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
لڑائیاں اور جنگیں شمال مغرب پاکستان میں جنگ   ویکی ڈیٹا پر (P607) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر پاکستان آئی ایس آئی کے سابق سربراہ ہیں۔ ان کو 22 ستمبر، 2014ء کو یہ عہدہ سونپا گیا ہے۔[1] اس سے پہلے ظہیر الاسلام سربراہ تھے، جو 4 اکتوبر،2014ء کو اپنے عہدے سے سبکدوش ہو گئے۔

فوجی دور

[ترمیم]

1982ء میں فرنٹیئر فورس میں کمیشنڈ افسر بھرتی ہوئے۔ فونٹیئر فورس کے مسلسل چھٹے آئی ایس آئی چیف ہیں جنھیں اس انفینٹری سے لایا گیا ہے۔ جنرل رضوان اختر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اچھی تعلیم اور تجربہ رکھتے ہیں۔ پاکستانی فوج کے محکمۂ تعلقاتِ عامہ کے مطابق جنرل رضوان اختر نے کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج کوئٹہ اور نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی،اسلام آباد سے گریجویٹ ہیں۔ انھوں نے امریکی فوج کے پینسلوونیا میں واقع وار کالج میں جنگی کورس بھی کیا ہے۔ جنرل رضوان اختر نے پاکستان کے شمال مشرقی قبائلی علاقوں اور کراچی میں شدت پسندوں کے خلاف کارروائیوں میں متعدد عہدوں پر کام کیا۔[2]

چیلنجز

[ترمیم]

جنرل رضوان اختر کو اس وقت پاکستان کی اندرونی صورت حال کا چیلنج درپیش ہو گا۔ پاکستان میں گذشتہ 2 ماہ سے سیاسی حالات کشیدہ ہیں، فوج ملک کے اندر آپریشن ضرب عضب میں مصروف ہے، سانحہ ماڈل ٹاؤن کے نتیجے میں انقلاب مارچ اور مبینہدھاندلی پر آزادی مارچ کے کارکنان 14 اگست سے مختلف مطالبات لیے بیٹھے ہیں۔ جن کی وجہ سیکورٹی ادارے مشکل صورت حال میں ہيں۔ فوج اور آئی ایس آئی پر ان دھرنوں کی پشت پنائی کا الزام مسلسل مختلف حلقے لگا رہے ہیں۔ کراچی اور بلوچستان میں منصوبہ بندی سے قتل کرنے اور اغوا ہونے کے واقعات جاری ہیں، جن میں اہم شخصیات کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ایم کیو ایم اور پاکستان عوامی تحریک اور پی ٹی آئی نے مزید صوبے بنانے کی تجویز پیش کر نے سے سیاسی، لسانی اور صوبائی تعصب کے مسائل ایک بار پھر پیدا ہونا شروع ہو چکے ہیں۔

مزید دیکھیے

[ترمیم]
فوجی دفاتر
ماقبل  ڈائریکٹر جنرل انٹر سروسز انٹلیجنس مابعد 

حوالہ جات

[ترمیم]