سید احمد بن سید محمد عرفان شہید بریلوی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 29 نومبر 1786ء 6 صفر بمطابق 1201ھ [1] دائرہ شاہ علم اللہ رائے بریلی |
وفات | 6 مئی 1831ء بمطابق 24 ذیقعدہ 1246ھ [2] بالاکوٹ ضلع مانسہرہ |
شہریت | برطانوی ہند |
نسل | سید |
مکتب فکر | ولی اللہی |
عملی زندگی | |
تلمیذ خاص | سید نذیر حسین دہلوی |
پیشہ | جہادی ، سیاست دان |
متاثر | شاہ اسماعیل دہلوی، مولانا عبد الحی بڈھانوی، کرامت علی جونپوری، ولایت علی عظیم آبادی، رشید احمد گنگوہی، ابو الحسن علی ندوی، محمد الیاس کاندھلوی |
درستی - ترمیم |
سید احمد بریلوی (6 صفر 1201ھ/29 نومبر 1786ء - 24 ذیقعدہ 1246ھ/6 مئی 1831ء)[3][4] ایک عالم دین تھے جن کی پیدائش بھارتی صوبہ اترپردیش کے ضلع رائے بریلی کے ایک قصبہ دائرہ شاہ علم اللہ میں ہوئی۔ بچپن ہی سے گھڑ سواری، مردانہ و سپاہیانہ کھیلوں اور ورزشوں سے خاصا شغف تھا۔ والد کے انتقال کے بعد تلاشِ معاش کے سلسلے میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ لکھنؤ اور وہاں سے دہلی روانہ ہوئے، جہاں شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی اور شاہ عبد القادر دہلوی سے ملاقات ہوئی، ان دونوں حضرات کی صحبت میں سلوک و ارشاد کی منزلیں طے کی۔ خیالات میں انقلاب آ گیا۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی تحریک اور ان کے تجدیدی کام کو لے کر میدانِ عمل میں آ گئے۔
یہ وہ وقت تھا جب ہندوستان میں مسلمانوں کی سیاسی طاقت فنا ہو رہی تھی، مشرکانہ رسوم و بدعات اسلامی معاشرہ میں زور پکڑ رہے تھے، سارے پنجاب پر سکھ اور بقیہ ہندوستان پر انگریز قابض ہو چکے تھے۔ سید احمد شہید نے اسلام کے پرچم تلے فرزندانِ توحید کو جمع کرنا شروع کیا اور جہاد کی صدا بلند کی، جس کی بازگشت ہمالیہ کی چوٹیوں اور نیپال کی ترائیوں سے لے کر خلیج بنگال کے کناروں تک سنائی دی جانے لگی اور نتیجتاً تحریک مجاہدین وجود میں آئی جس کی مثال آخری صدیوں میں نہیں ملتی۔ بعض سیاسی تقاضوں اور فوجی مصالح کی بنا پر سید صاحب نے اپنی مہم کا آغاز ہندوستان کی شمال مغربی سرحد سے کیا۔ سکھوں سے جنگ کر کے مفتوحہ علاقوں میں اسلامی قوانین نافذ کیے۔ لیکن بالآخر 1831ء میں رنجیت سنگھ کی کوششوں کے نتیجے میں بعض مقامی پٹھانوں نے بے وفائی کی اور بالاکوٹ کے میدان میں سید صاحب اور ان کے بعض رفقا نے جامِ شہادت نوش فرمایا۔
سید احمد کی ولادت بھارت کے صوبہ اترپردیش کے ضلع رائے بریلی کے ایک قصبہ دائرہ شاہ علم اللہ میں 6 صفر 1201ھ/29 نومبر 1786ء کو ہوئی۔
[1]
سید احمد بن سید محمد عرفان بن سید محمد نور بن سید محمد ہدیٰ بن سید علم اللہ بن سید محمد فضیل۔
کئی واسطوں سے آپ کا نسب حسن مثنّیٰ بن امام حسن بن علی ابن ابی طالب تک پہنچتا ہے۔ حسن مثنّیٰ کی شادی اپنے چچا امام حسین کی صاحبزادی فاطمہ صغریٰ سے ہوئی تھی، اس لحاظ سے سید صاحب کا خاندان حسنی حسینی کہلاتا ہے۔[5]
آپ کو بچپن ہی سے مردانہ اور سپاہیانہ کھیلوں کا شوق تھا۔ خدمت خلق، ضعیفوں، معذورین اور بیواؤں کی خدمت کرنے کا جذبہ اور عبادت اور ذکر الہی کا ذوق بہت بڑھا ہوا تھا۔
چار سال کی عمر میں آپ کی تعلیم شروع کی گئی، لیکن خاندان کے دیگر ہم عمر لڑکوں کے بر خلاف تین سال گذرنے کے بعد بھی سید صاحب کی طبیعت کا میلان تعلیم کی طرف نہیں ہو سکا، باوجود استاد کی کوششوں کے قرآن مجید کی چند سورتیں ہی یاد اور مفرد و مرکب الفاظ لکھنا سیکھ سکے۔
بارہ سال کی عمر میں والد ماجد مولانا محمد عرفان صاحب کا وصال ہو گیا۔ چنانچہ حالات کے پیش نظر سولہ سترہ برس کی عمر میں تحصیل معاش کے خاطر اپنے سات عزیزیوں کے ساتھ لکھنؤ کے سفر پر روانہ ہوئے۔ رائے بریلی سے لکھنؤ کی مسافت کافی زیادہ ہے، سواری صرف ایک تھی جس پر باری باری سوار ہوتے تھے مگر سید صاحب اپنی باری کے وقت باصرار کسی اور کو سوار کردیتے۔ اسی خدمت اور محنت سے لکھنؤ پہنچے۔ وہاں پہنچ کر سب ساتھی تلاش معاش میں مشغول ہو گئے۔ سید صاحب نے ایک امیر کے گھر قیام کیا۔ اس وقت نواب سعادت علی خان کا عہد حکومت تھا۔ بے روزگاری عام تھی۔ سید صاحب کا کھانا اسی امیر کے گھر سے آتا لین آپ اسے اپنے ساتھیوں کو عنایت فرمادیتے۔
چار ماہ بعد سید صاحب نے شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کی خدمت میں حاضری کا ارادہ کیا۔ اسی غرض سے اپنے ساتھیوں کو تیار کرتے رہے، پھر خود تن تنہا دہلی روانہ ہو گئے۔
پورا سفر پیادہ پا طے کیا اور کئی روز بعد دہلی پہنچے۔ وہاں شاہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کے سید صاحب کے خاندان دیرینہ مراسم تھے۔ لہذا ملاقات پر بہت خوش ہوئے اور اپنے بھائی شاہ عبد القادر دہلوی کے پاس ٹھرایا۔
آپ نے اپنے اقوال وافعال کے ذریعہ بدعات وخرافات کی دھجّیاں بکھیر کر رکھ دیں ، ایسی ایسی سنتوں کو زندہ کیا جو مردہ ہو چکی تھیں ۔ آپ اپنے وقت کے داعی الی اللہ شخص تھے۔ آپ کے ہاتھ پر چالیس ہزار سے زیادہ ہندو مسلمان ہوئے اور تیس لاکھ مسلمانوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ یہ سب آپ کے ایسے اصلاحی وتجدیدی کارنامے ہیں جو ہمیشہ کے لیے یادگار رہیں گے۔[6]
سید صاحب کی مندرجہ ذیل تصانیف کا علم ہو چکا ہے: