مصنف | Philip Meadows Taylor |
---|---|
ملک | مملکت متحدہ |
زبان | انگریزی |
صنف | ناول |
تاریخ اشاعت | 1839ء |
طرز طباعت | Print (مجلد اور کاغذی جلد) |
صفحات | 552 صفحات |
امیر علی ٹھگ بن یوسف خان ایک ناول "ایک ٹھگ کے اعترافات" (Confessions of a Thug) کا مرکزی کردار ہے۔ امیر علی کی پیدائش 1767 میں ہوئی۔ 1775 میں اغوا ہو گیا اور 1789 میں ٹھگوں میں شمولیت اختیار کی۔ 1790 سے 1815 تک وارداتیں کرتا رہا پھر انگریزوں کے ہاتھ گرفتار ہوا۔ وعدہ معاف گواہ بن کر رہا ہوا۔ پوری کتاب اسی کے اعترافات پر مشتمل ہے۔ یہ ناول 1839ء میں کیپٹن فلپ میڈوز ٹیلر (Philip Meadows Taylor) نے انگریزی زبان میں لکھا تھا۔ اپنے زمانے کا یہ سب سے زیادہ فروخت ہونے والا ناول رہا ہے۔ ملکہ برطانیہ نے بھی اس ناول میں بڑی دلچسپی لی تھی۔
اگرچہ بے شمار مصنفین نے فرنگیا کو سید امیر علی کا دوسرا نام بتایا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ فرنگیا ایک دوسرا ٹھگ تھا جو عمر میں امیر علی سے لگ بھگ دس سال چھوٹا تھا۔
فرنگیا بھی امیر علی کی طرح ٹھگوں کا ایک مشہور لیڈر تھا اور وہ بھی گرفتاری کے بعد سلطانی گواہ بن گیا تھا۔
فلپ میڈو ٹیلر (Philip Meadows Taylor) لیورپول، انگلینڈ میں 1808ء میں پیدا ہوا۔16 سال کی عمر میں وہ کام سیکھنے کی غرض سے کسی تاجر کے ساتھ بمبئی آیا۔ لیکن جب اس کی فرم دیوالیہ ہو گئی تو وہ نظام دکن کی افواج میں بطور لفٹننٹ شامل ہو گیا جہاں اس نے ہندی اور فارسی سیکھی۔ اسے دکن کے جنوب مغربی اضلاع کا پولیس سپریٹنڈنٹ بنایا گیاجہاں اسے ٹھگوں کے خلاف مہم میں کام کرنے کا موقع ملا۔1841ء سے 1853ء تک وہ لندن ٹائمز کا نمائندہ بھی رہا۔ 1860ء میں وہ واپس انگلینڈ چلا گیا۔ اس نے ہندوستان سے متعلق کئی اور کتابیں بھی لکھی ہیں۔[1]
جب ہندوستان میں انگریزوں نے ٹھگوں کے خلاف مہم شروع کی تو سید امیر علی کو 1832ء میں اپنے ہی دو ساتھی ٹھگوں کی غداری کی وجہ سے سوگر سے گرفتار کر کے نظام دکن کے علاقے میں بھیجا گیا جہاں کافی مزاحمت کے بعد امیر علی نے سلطانی گواہ بننے پر آمادگی ظاہر کر دی اور اپنے بہت سے ساتھیوں کو گرفتار کروا دیا۔ اپنی اسیری کے دوران میں اس نے اپنی پوری زندگی کے واقعات بیان کر دیے جن کو یکجا کر کے مصنف نے یہ ناول ترتیب دیا۔ آخری گرفتاری کے وقت امیر علی کی عمر لگ بھگ 40 سال تھی۔
سید امیر علی نے اقرار کیا کہ اس نے 719 انسانوں کو قتل کیا ہے اور اسے افسوس تھا کہ اگر اس کی زندگی کے 12 سال قید میں نہ گزرتے تو یہ تعداد 1000 سے اوپر ہوتی۔
یہ بڑی عجیب بات لگتی ہے کہ ٹھگی کے پیشے میں ہندو اور مسلمان دونوں شامل تھے اور دونوں ہی بھوانی (کالی دیوی) کی پرستش کرتے تھے اور اچھے اور بُرے شگون کے مطابق اپنی حکمت عملی تبدیل کر لیا کرتے تھے۔
سید امیر علی پانچ وقت کا نمازی تھا، باقاعدگی سے روزے بھی رکھتا تھا لیکن اس نے یہ بھی تسلیم کیا کہ اپنی بِیٹی کو رقم پہنچانے کے لیے اس نے قرآن پر ہاتھ رکھ کر جھوٹی قسم بھی کھائی تھی۔ نا دانستگی میں اس نے خود اپنی اکلوتی سگی بہن کو بھی رومال کے پھندے سے ہلاک کر دیا تھا۔
ٹھگوں کے خلاف مہم کا انچارج کرنل سلیمین تھا۔ اس نے لکھا تھا کہ اگر 1824 میں نرسنگپور میں،جہاں کا میں انچارج تھا، کوئی مجھے یہ کہتا کہ پیشہ ور قاتلوں کا ایک گروہ میرے کورٹ سے صرف 400 گز کی دوری پر کنڈلی نامی گاؤں میں رہ رہا ہے تو مجھے ہر گز یقین نہ آتا اور میں اسے پاگل سمجھتا۔ لیکن سوگر اور بھوپال کے درمیانی رستے پر صرف ایک دن کی مسافت پرمنڈے سر نامی گاؤں کے پاس سینکڑوں مسافروں کی لاشیں دفن تھیں حالانکہ میں اس پورے ضلعے کا میجسٹریٹ تھا اور وہاں کے سارے چور ڈاکوں سے واقف تھا۔ وہاں کے دو زمیندار بھی ٹھگوں کو معاونت فراہم کرتے تھے۔۔۔ سلطانی گواہوں کی نشان دہی پر بہت سی قبروں کی قبر کشائی پر میں خود موجود تھا اور ہر قبر سے کئی کئی لاشیں برآمد ہویں۔
ٹھگ کا نام | کتنے قتل کیے |
---|---|
بہرام | 931 |
سید امیر علی | 719 |
رمضان | 604 |
فتح خان | 508 |
امیر علی کے اصل باپ کا نام یوسف خان تھا اور وہ پٹھان تھا۔ وہ لوگ دہلی کے نزدیک مالوہ کے ایک گاؤں ایکلیرا میں رہتے تھے۔ کسی وجہ سے یوسف خان نے ایکلیرا چھوڑ کر اندور جانے کا ارادہ کیا اور ایکلیرا کے اپنے سارے اثاثے بیچ کر اپنی بیوی اور امیر علی کے ساتھ اندور کی راہ لی۔ اپنی بیٹی کو اس نے گاؤں میں ہی چھوڑ دیا کیونکہ وہ اتنی چھوٹی تھی کہ سفر کے قابل نہ تھی۔ ان کی حفاظت کے لیے گاؤں کے چند مسلح نوجوان بھی ساتھ تھے۔ اس وقت امیر علی کی عمر شائید 5 سال رہی ہو گی۔
راستے میں اسماعیل نامی ایک ٹھگ نے یوسف خان کا اعتماد حاصل کر لیا اور دونوں پارٹیاں اب ساتھ سفر کرنے لگیں۔ اندور کے کافی نزدیک پہنچ کراسماعیل کے مشورے پر یوسف خان نے اپنے محافظ واپس ایکلیرا بھیج دیے۔ اس کے بعد ٹھگ ان پر ٹوٹ پڑے۔ یوسف خان کو اسماعیل نے اور اس کی بیوی (امیر علی کی ماں) کو گنیشا نامی ٹھگ نے گلے میں پھندا ڈال کر مار ڈالا۔ گنیشا نے امیر علی کو بھی مارنے کی کوشش کی مگر اسماعیل نے اسے بچا لیا اور اسے بیٹے کی طرح پال پوس کر بڑا کیا اور ٹھگ بنا دیا۔ اسماعیل کی اپنی کوئی اولاد نہیں تھی۔ امیر علی کو بچپن کے یہ واقعات یاد نہیں تھے مگر جب جیل میں ایک بوڑھے ٹھگ نے جو چشم دید گواہ تھا، امیر علی کے سامنے پوری کہانی دہرائی تو امیر علی کو بھی سب کچھ یاد آ گیا۔ اس وقت اس کا منہ بولا باپ اسماعیل جھالون کے راجا کے ہاتھوں ہاتھی کے پاوں کے نیچے کچل کر سزائے موت پا چکا تھا۔ مرنے سے چند منٹ پہلے اس نے امیر علی کو بتا دیا تھا کہ میں تمھارا باپ نہیں ہوں اور اس وقت امیر علی اس بات پر بڑا حیران ہوا تھا۔
انگریزوں کے ہاتھوں گرفتاری کے بعد امیر علی نے سب سے پہلے گنیشا کو گرفتار کروایا جسے 20 ساتھیوں سمیت پھانسی دے دی گئی۔
اس ناول میں تین عورتوں نے امیر علی میں دلچسپی لی۔ پہلی عورت زہرہ ایک طوائف تھی جسے عمرخیر کا نواب حیدرآباد دکن سے خرید کر لایا تھا۔ سید امیر علی اُسے بھگا کر دوبارہ حیدرآباد میں اُس کی ماں کے پاس پہنچا دیتا ہے مگر اس کی ماں شادی کے لیے امیر علی سے 15 ہزار روپے طلب کرتی ہے جو امیر علی ادا نہیں کر پاتا اور زہرہ کا ساتھ چھوٹ جاتا ہے۔
دوسری عورت عظیمہ بھی حیدرآباد میں ہی کسی امیر شخص کی بیوی تھی اور اپنے بوڑھے شوہر نصرت علی خان سے بالکل خوش نہیں تھی جس نے عظیمہ کو خرید کر اس سے شادی کی تھی۔ امیر علی اسے بھگا کر اس سے شادی کر لیتا ہے اور اپنے گھر لے آتا ہے۔ عظیمہ مرتے دم تک امیر علی کی بیوی رہی جس سے امیر علی کے دو بچے ہوئے۔ بیٹا بچپن میں ہی مر گیا لیکن بیٹی ذی حیات رہی۔
تیسری عورت شرفُن ایک بیوہ تھی جس کا مرحوم شوہرایک نواب تھا اور اس کی آگرہ کے نزدیک جاگیر تھی۔ لیکن شرفن کو معلوم ہو چکا تھا کہ امیر علی اور اس کے ساتھی ٹھگ ہیں۔ اس لیے امیر علی کی اجازت سے اس کے ساتھی موتی نے شرفن کو مار ڈالا۔ شرفن کے 14 محافظ اور ملازمین بھی اس کے ساتھ مارے گئے۔
ہندوستان میں ہونے والی برطانوی بربریت کی داستانیں یورپ اور امریکا بھی پہنچ رہی تھیں اور برطانیہ پر عالمی تنقید میں تیزی سے اضافہ ہو رہا تھا۔ ایسے موقع پر اس طرح کا ناول لکھ کر دنیا کو یہ تاثر دیا گیا کہ جو کچھ برطانوی ہندوستان میں کر رہے تھے وہ سب تو وہاں کا پہلے سے ہی معمول تھا۔ ٹھگی کا مسئلہ ختم کر کے برطانویوں نے تو ہندوستان پر بڑا احسان کیا ہے۔
Since the Sixties Indian and British historians have begun to claim that the Thugs had never existed – or at least in the way that Sleeman described them. In Hindustani “thug” originally meant not murderer, but trickster or con man. It was undeniable that they had appeared at a moment when the East India Company, then ruling large parts of India in the name of the British government, had been very keen to find justifications for its continued and ever-extending presence in India, and that their lurid story perfectly illustrated why India needed the British and their civilising influence.[2]
بعد میں آنے والی انتطامیہ نے بھی اس تخیل کے سہارے خوب پروپیگینڈا کیا۔
برطانوی پروپیگینڈا کا نظام، جسے اب جدید تاریخ کہا جاتا ہے، وارن ہیسٹنگز کے زمانے میں شروع کیا گیا تھا، جو کلائیو کے برعکس اپنا دفاع نہیں کرتا۔ اس کی بجائے ہیسٹنگز اور اس کی ٹیم کی اختراع یہ رہی ہے کہ کس طرح ہیسٹنگز اور برطانوی سلطنت نے ہندوستان کی بہتری کے لیے کام کیے۔
اور یہی پروپیگینڈا آج تک زندہ ہے۔
The ‘problem’ of ‘thugee’ was recognized and ‘rooted out’ first by Warren Hastings’ administration (1773–85)۔ Subsequent, administrations seized on this ‘creation’ and built an edifice of imagination and invention.۔۔The mechanics of British propaganda, called modern history, were crafted during the impeachment of Warren Hastings, who did not defend himself, unlike Clive. Instead, Hastings and his team created a narrative of how Hastings and the British Empire were doing ‘Good for India.’
A narrative that survives till today.[3]
It was not the first time thuggee, or the art of strangling travellers, had been heard of in England. Occasional mentions had been made since 1698 when John Fryer wrote of their activities, but in 1833 seven severed heads arrived for examination in Edinburgh. All had been taken from so-called "thugs" and after careful measurements the scientists of the city concluded that all showed remarkable criminal characteristics.[4]
یہ بات بعید از قیاس نہیں کہ ان ہلاکتوں کے ذمہ دار خود انگریز رہے ہوں اور اپنے جرم پر پردہ ڈالنے کے لیے انھوں نے ٹھگوں پر الزام لگا کر انھیں پھانسی دے دی یا کالا پانی بھیج دیا۔
1920ء میں کرنل سلیمین کے پوتے جیمز سلیمین کی چھپنے والی کتاب کا عنوان تھا"ٹھگ، دس لاکھ کے قاتل"۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ 20 سال کی تفتیش کے دوران میں صرف ایک ہزار لاشیں برآمد ہوئی تھیں۔ اس وقت ہندوستان کی آبادی 25 کروڑ تھی لیکن گرفتار ہونے والے ٹھگوں کی تعداد صرف 3000 تھی۔ ان میں سے 400 کو سزائے موت ہوئی۔ آج برطانیہ کی آبادی 6 کروڑ ہے جبکہ وہاں سنگین جرائم میں ملوث 17000 مجرم جیل میں قید ہیں۔ آج امریکا کی آبادی دنیا کی کل آبادی کا صرف 5 فیصد ہے جبکہ دنیا بھر کے جیلوں میں بند مجرموں کی تعداد کا 22 فیصد امریکی جیلوں میں قید ہیں۔ امریکیوں قیدیوں کی تعداد 23 لاکھ ہے[5]
ٹھگوں کے انسداد کے لیے انگریزوں نے جو قانون بنایا تھا اس کے مطابق جرم ثابت ہونا ضروری نہیں تھا۔ بس کسی سلطانی گواہ کی نشان دہی پر کہ یہ ٹھگ ہے پھانسی کی سزا ہو جاتی تھی۔ ایسے سلطانی گواہ کی تعداد 483 تھی اور کسی کے ٹھگ ہونے کا خود بخود مطلب تھا کہ وہ مجرم بھی ہے اور اپیل بھی نہیں کر سکتا۔ جب ایک جج نے اعتراض کیا تو اسے نوکری سے نکال دیا گیا۔
“the government went as far as removing a judge from his post because he claimed thuggee did not exist and refused to cooperate in the operations against them.”