سید ممتاز علی

سید ممتاز علی

معلومات شخصیت
پیدائش 27 ستمبر 1860ء [1]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
دیوبند   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 15 جون 1935ء (75 سال)[1]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
لاہور   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن دیوبند   ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت برطانوی ہند   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
زوجہ محمدی بیگم [1]  ویکی ڈیٹا پر (P26) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد امتیاز علی تاج   ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی دار العلوم دیوبند   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
استاذ محمد قاسم نانوتوی ،  محمد یعقوب نانوتوی   ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ناشر ،  مصنف ،  مترجم   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کارہائے نمایاں تہذیب نسواں   ویکی ڈیٹا پر (P800) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
باب ادب

سید ممتاز علی (پیدائش: 27 ستمبر، 1860ء - وفات: 15 جون، 1935ء) اردو زبان کے معروف مصنف، ناشر، مترجم، رفاہِ عام پریس کے مالک اور زنانہ اخبار تہذیب نسواں کے بانی تھے۔ انار کلی اور سابق ڈائریکٹر مجلس ترقی ادب لاہور امتیاز علی تاج ان کے فرزند تھے۔

حالات زندگی

[ترمیم]

پیدائش

[ترمیم]

مولوی سید ممتاز علی 27 ستمبر، 1860ء میں راولپنڈی، صوبہ پنجاب (برطانوی ہند) میں پیدا ہوئے۔ان کے والد کا نام سید ذو الفقار علی تھا۔[2]

تعلیم

[ترمیم]

مولانا محمد قاسم نانوتوی اور مولوی محمد یعقوب سے قرآن، حدیث اور فقہ کی تعلیم حاصل کی۔ انگریزی کی تعلیم کچھ پرائیویٹ، کچھ اسکولوں میں پائی۔

عملی زندگی

[ترمیم]

1876ء میں لاہور چلے گئے اور تا دمِ مرگ وہیں رہے۔ 1884ء میں پنجاب چیف کورٹ میں مترجم مقرر ہوئے اور 1891ء تک رہے۔ پھر انھوں نے 1898ء میں لاہور میں رفاہِ عام پریس قائم کیا، جہاں سے نہایت بلند پایہ کتابیں بہترین طباعت اور کتابت کے ساتھ شائع ہوتی تھی۔ اس کے علاوہ انھوں نے دار الاشاعت پنجاب کے نام سے ایک کتب خانہ بھی قائم کیا۔ یکم جولائی 1898ء میں انھوں نے عورتوں کے لیے اعلیٰ پایہ کا ہفتہ وار اخبار تہذیب نسواں جاری کیا،جس کی ادارت ان کی بیوی محمدی بیگم کے سپرد تھی۔ تہذیب نسواں بہت جلد سارے ہندوستان کے متوسط طبقے کے اردو داں مسلم گھرانوں میں پہنچنے لگا، اس کی وجہ سے معمولی تعلیم یافتہ پردہ نشیں خواتین میں تصنیف و تالیف کا شوق پیدا ہوا۔ یہ اخبار 1949ء تک جاری رہا۔ 1909ء میں بچوں کے لیے جریدہ پھول کا اجرا کیا جو تقسیم ہند کے بعد بھی نکلتا رہا۔ حکومت ہند نے ان کی علمی و ادبی خدمات کے صلہ میں 1934ء میں انھیں شمس العلماء کا خطاب دیا۔ سر سید احمد خان سے ان کے گہرے مراسم تھے۔ اخلاق و مروت کے لحاظ سے ایک بہترین انسان اور نہایت منکسر المزاج اور با اصول شخص تھے۔ ڈراما انارکلی کے مصنف اور مجلس ترقی ادب لاہور کے سابق ڈائریکٹر امتیاز علی تاج ان کے فرزند ہیں۔[3]

تصانیف

[ترمیم]
  • محاکمہ ولادت مسیح
  • خیرالمقال فی ترجمہ المنقد من الضلال
  • ردالملاحدہ
  • تذکرۃ الانبیاء
  • پھوڑنامہ
  • سبیل الرشاد
  • ثبوت واجب الوجود
  • ترجمہ زاد المعاد
  • خانہ داری
  • دربار اکبری
  • خزینۃ الاسرار
  • شیخ حسن (روحانیات، دار الشاعت پنجاب لاہور، 1930ء)
  • اربعین من احادیث سید المرسلین (حدیث، دار الاشاعت پنجاب لاہور، 1937ء)
  • تفصیل البیان
  • حقوق نسواں (مطبع رفاہ عام لاہور، 1898ء)
  • ریاض الاخلاق (مولوی مرزا سلطان احمد خاں کے متفرق مضامین کا مجموعہ، ترتیب:مولوی سید ممتاز علی، رفاہ عام اسٹیم لاہور، 1900ء)
  • سراج الاخلاق (مولوی مرزا سلطان احمد خاں کے متفرق مضامین کا مجموعہ، ترتیب:مولوی سید ممتاز علی، رفاہ عام اسٹیم لاہور، 1903ء)

بانی مدیر

[ترمیم]
  • تہذیب نسواں
  • پھول

وفات

[ترمیم]

مولوی ممتاز علی 15 جون 1935ء کو لاہورمیں انتقال کرگئے۔ انھیں دیوبند کے آبائی قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔[3]

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. ^ ا ب پ عنوان : Oxford Dictionary of National Biography — ناشر: اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس
  2. مولوی محبوب عالم، اردو صحافت کی ایک نادر تاریخ، مغربی پاکستان اردو اکیڈمی، لاہور، 1992ء، ص 156
  3. ^ ا ب نقوش لاہور نمبر، شمارہ 92۔ فروری 1962ء، ادارہ فروغِ اردو لاہور، ص 948