سید ممتاز علی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 27 ستمبر 1860ء [1] دیوبند |
وفات | 15 جون 1935ء (75 سال)[1] لاہور |
مدفن | دیوبند |
شہریت | برطانوی ہند |
زوجہ | محمدی بیگم [1] |
اولاد | امتیاز علی تاج |
عملی زندگی | |
مادر علمی | دار العلوم دیوبند |
استاذ | محمد قاسم نانوتوی ، محمد یعقوب نانوتوی |
پیشہ | ناشر ، مصنف ، مترجم |
پیشہ ورانہ زبان | اردو |
کارہائے نمایاں | تہذیب نسواں |
باب ادب | |
درستی - ترمیم |
سید ممتاز علی (پیدائش: 27 ستمبر، 1860ء - وفات: 15 جون، 1935ء) اردو زبان کے معروف مصنف، ناشر، مترجم، رفاہِ عام پریس کے مالک اور زنانہ اخبار تہذیب نسواں کے بانی تھے۔ انار کلی اور سابق ڈائریکٹر مجلس ترقی ادب لاہور امتیاز علی تاج ان کے فرزند تھے۔
مولوی سید ممتاز علی 27 ستمبر، 1860ء میں راولپنڈی، صوبہ پنجاب (برطانوی ہند) میں پیدا ہوئے۔ان کے والد کا نام سید ذو الفقار علی تھا۔[2]
مولانا محمد قاسم نانوتوی اور مولوی محمد یعقوب سے قرآن، حدیث اور فقہ کی تعلیم حاصل کی۔ انگریزی کی تعلیم کچھ پرائیویٹ، کچھ اسکولوں میں پائی۔
1876ء میں لاہور چلے گئے اور تا دمِ مرگ وہیں رہے۔ 1884ء میں پنجاب چیف کورٹ میں مترجم مقرر ہوئے اور 1891ء تک رہے۔ پھر انھوں نے 1898ء میں لاہور میں رفاہِ عام پریس قائم کیا، جہاں سے نہایت بلند پایہ کتابیں بہترین طباعت اور کتابت کے ساتھ شائع ہوتی تھی۔ اس کے علاوہ انھوں نے دار الاشاعت پنجاب کے نام سے ایک کتب خانہ بھی قائم کیا۔ یکم جولائی 1898ء میں انھوں نے عورتوں کے لیے اعلیٰ پایہ کا ہفتہ وار اخبار تہذیب نسواں جاری کیا،جس کی ادارت ان کی بیوی محمدی بیگم کے سپرد تھی۔ تہذیب نسواں بہت جلد سارے ہندوستان کے متوسط طبقے کے اردو داں مسلم گھرانوں میں پہنچنے لگا، اس کی وجہ سے معمولی تعلیم یافتہ پردہ نشیں خواتین میں تصنیف و تالیف کا شوق پیدا ہوا۔ یہ اخبار 1949ء تک جاری رہا۔ 1909ء میں بچوں کے لیے جریدہ پھول کا اجرا کیا جو تقسیم ہند کے بعد بھی نکلتا رہا۔ حکومت ہند نے ان کی علمی و ادبی خدمات کے صلہ میں 1934ء میں انھیں شمس العلماء کا خطاب دیا۔ سر سید احمد خان سے ان کے گہرے مراسم تھے۔ اخلاق و مروت کے لحاظ سے ایک بہترین انسان اور نہایت منکسر المزاج اور با اصول شخص تھے۔ ڈراما انارکلی کے مصنف اور مجلس ترقی ادب لاہور کے سابق ڈائریکٹر امتیاز علی تاج ان کے فرزند ہیں۔[3]
مولوی ممتاز علی 15 جون 1935ء کو لاہورمیں انتقال کرگئے۔ انھیں دیوبند کے آبائی قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔[3]