سید نذیر حسین دہلوی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 1805ء |
وفات | 13 اکتوبر 1902ء (96–97 سال) چاندنی چوک |
رہائش | مونگیر ضلع (1805–1826) دہلی (1826–13 اکتوبر 1902) |
شہریت | برطانوی ہند |
عملی زندگی | |
استاذ | محمد اسحاق دہلوی ، شاہ اسماعیل شہید ، سید احمد بریلوی |
پیشہ | عالم |
درستی - ترمیم |
سید نذیر حسین دہلوی (پیدائش: 1805ء — وفات: 13 اکتوبر 1902ء) تحریک اہل حدیث کے نامور رہنما اور مصلح تھے۔ بھارت میں تحریک اہل حدیث کی تشریح میں ان کا کردار نمایاں نظر آتا ہے۔ انھیں شیخ الکُل کا خطاب ملا ہے۔[1][2] وہ اور نواب صدیق حسن خان (1832ء–1890ء) تحریک اہل حدیث کے بانیان میں شمار کیے جاتے ہیں۔[3][4][5] سید نذیر حسین کو مسلک کی ترویج اور تشہیر میں سب سے موثر مانا جاتا ہے۔[4]
مسلک اہل حدیث میں ان جیسا محدث نہیں گذرا۔ ساٹھ سال دہلی میں حدیث شریف پڑھائی اس لیے آپ کو شیخ الکل فی الکل کا لقب دیا گیا۔ جماعت اہل حدیث کے ہزاروں شیوخ الحدیث آپ کے شاگرد ہیں۔ حدیث شریف پڑھانے میں آپ کو خاص ملکہ حاصل تھا، یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کے علاوہ حجاز، مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ، یمن، نجد، شام، حبش، افریقا، تونس، الجزائر، کابل، غزنی، قندھار، سمرقند، بخارا، داغستان، ایشیائے کوچک، ایران، خراسان، ہرات، چین، سری لنکا و دیگر ممالک سے طلبہ حدیث شریف پڑھنے کے لیے آپ رحمہ اللہ کے پاس آتے تھے۔
نذیر حسین کی ولادت معتبر خاندان اشراف میں ہوئی۔ ان کی جائے ولادت مونگیر، بہار، بھارت ہے۔[6] انھوں نے بطور شیعہ پرورش پائی مگر بعد میں بدظن ہو گئے۔[7] انھوں نے اپنی تعلیم کا آغاز صادق نگر بہار سے کیا جہاں ان کی ملاقات تحریکی مزاج رکھنے والے سید احمد بریلوی (1786ء–1831ء) سے 1820ء کی دہائی میں ہوئی۔[8] بعد میں وہ 1826ء میں دہلی چلے گئے اور شاہ ولی اللہ (1703ء–1762ء) کے فرزند شیخ عبد العزیز محدث دہلوی (1746ء–1824ء) کی شاگردی اختیار کرلی۔ ان کے بعد ان کے شاگرد اور بیٹے اور مشہور محدث محمد اسحاق (1778ء–1846ء) سے تعلیم حاصل کی۔[7] محمد اسحٰاق نے حجاز کا سفر کیا اور وہیں کے ہو رہے۔ ادھر نذیر حسین کو ان کی جانشینی کا شرف حاصل ہوا اور استاد کے مسند پر درس دینے لگے۔[9] دہلی کا مدرسہ رحیمیہ ہندوستان مذہبی تحریکی تاریخ میں بہت اہمیت کا حامل ہے۔ شیخ محمد اسحاق کی وفات کے بعد یہیں سے مختلف تحریکیں اٹھیں اور نذیر حسین نے وہابی تحریک کی سرپرستی کی۔[10]
سید نذیر حسین محدث دہلوی دہلی کی سربرآوردہ شخصیات میں تھے۔ اس لیے ملک کی سیاسی صورتحال سے لاتعلق رہنا ان کیلئے ناممکن تھا۔ 1857ء میں انگریزوں کے قبضے کے خلاف ملک میں بے چینی اور غم وغصہ کی لہر دوڑ گئی اور اس غاصبانہ نا انصافی کے خلاف مسلح جدوجہد کا آغاز کیا۔ جنرل بخت خان کی دہلی آمد سے ان کوششوں کو نظم وضبط اور عسکری اعتبار سے عروج ملا۔ اس موقع پر جنرل نے دہلی کے ممتاز علمائے کرام کو جمع کرکے فتوی جہاد مرتب کرایا۔ اس فتوی کو اس وقت کے دو معروف اخبارات ظفر الاخبار اور صادق الاخبار نے شائع کیا۔ ان علماء میں سید نذیر حسین محدث کا نام نمایاں اور سرفہرست مذکور ہے۔ فتوی میں جہاد کو فرض عین قرار دیا گیا اور انگریز کا پامردی سے مقابلہ کرنے کا حکم دیا گیا۔ [11]
1868ء میں وہ جیل سے رہا ہوئے اور بھوپال کے نواب صدیق حسن خان اور محمد حسین بٹالوی (1840ء–1920ء) کے ساتھ مل کر جمعیت اہل حدیث کی بنیاد رکھی۔ آخر الذکر دونوں مدرسہ رحیمیہ کے ہی پروردہ تھے۔ جمعیت ایک مذہبی و سیاسی جماعت تھی۔[12]
سید نذیر حسین کے اہم شاگردوں میں امداد اللہ مہاجر مکی[13]، محمد قاسم نانوتوی اور رشید احمد گنگوہی[14] تھے۔ یہ تینوں دیوبندی مکتب فکر[15] کے بنیاد گزار اور سرخیل کہے جاتے ہیں۔ جن کا دوسرا نکاح 1884ء میں نذیر حسین نے ہی پڑھایا تھا۔ حکیم نورالدین اورمولانا محمد الیاس اخونزادہ کوچانی پشاوری کو ان کی شاگردی کا شرف ملا ہے۔[16] ان کے علاوہ عبد اللہ غزنوی، ثناء اللہ امرتسری، شمس الحق عظیم آبادی اور سرسید احمد خان نے نذیر حسین کی شاگردی اختیار کی ہے اور یہ تمام کسی نہ کسی تعمیری کالم میں ملوث رہے اور ہندوستانی اسلام کی تاریخ میں اہم شخصیت قرار پائے۔[17][18][19] وحید الزماں حیدرآبادی بھی آپ کے شاگرد تھے۔[20].
سید نذیر حسین کی وفات 13 اکتوبر 1902ء کو دہلی میں ہوئی۔[21]