شاہ تراب الحق قادری | |
---|---|
پیدائش | 15 ستمبر 1944 حیدرآباد دکن ضلع، بھارت |
وفات | 6 اکتوبر 2016 کراچی |
مدفن | میمن مسجد مصلح الدین گارڈن سابقہ کھوڑی گارڈن جوڑیابازار اولڈ سٹی ایریا کراچی |
پیشہ | عالم دین، امیر جماعت اہل سنت پاکستان کراچی |
مذہب | اسلام |
تحریک | جماعت اہل سنت |
سلسلۂ تصوف | سلسلہ قادریہ |
سلسلہ مضامین |
بریلوی تحریک |
---|
![]() |
|
ادارے بھارت
پاکستان
مملکت متحدہ |
علامہ شاہ تراب الحق قادری (پیدائش : 25 اگست 1946ء، وفات 6 اکتوبر 2016ء) معروف عالم دین اور جماعت اہلسنت پاکستان کراچی کے امیر اور متعدد کتب کے مصنف تھے۔ پاکستان قومی اسمبلی کے رکن، روئیت ہلال کمیٹی کے رکن سمیت کئی سرکاری اور غیر سرکاری عہدوں پر فائز رہے۔[1][2][3]
علامہ شاہ تراب الحق قیام پاکستان سے ایک سال قبل 27 رمضان 1365ہجری بمطابق 25 اگست 1946ء کو بھارت کی ریاست حیدرآباد دکن کے شہر ناندھیڑ کے مضافات میں موضع کلمبر میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام سید شاہ حسین قادری تھا اور والدہ ماجدہ کا نام اکبر النساء بیگم تھا۔ والد ماجد کی طرف سے سید ہیں اور والدہ ماجدہ کی طرف سے فاروقی۔ اپنے وقت کے جید عالم، مدیر المہام امور مذہبی حیدرآباد دکن مولانا انوار اﷲ خان صاحب فاروقی سے ان کا ننھیال ہے۔ شاہ تراب الحق نے ابتدائی تعلیم مدرسہ تحتانیہ دودھ بولی بیرون دروازہ نزد جامعہ نظامیہ حیدرآباد دکن میں حاصل کی۔ ان کا خاندان تقسیم ہند اور سقوط حیدرآباد دکن کے بعد 1951ء میں بھارت سے ہجرت کرکے پاکستان آیا۔ پاکستان آنے کے بعد پی آئی بی کالونی (کراچی) کے قریب لیاقت بستی میں قیام کیا، اس کے بعد کورنگی منتقل ہو گئے۔ کراچی میں ’’فیض عام ہائی اسکول‘‘ میں تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد اپنے رشتے کے خالو اور سسر قاری مصلح الدین صدیقی کے گھر پر تعلیم حاصل کی، پھر دارالعلوم امجدیہ سے دینی تعلیم حاصل کی۔
علامہ سید شاہ تراب الحق قادری رحمۃ اللہ علیہ کا نکاح 1966ء میں اپنے استاد علامہ قاری محمد مصلح الدین صدیقی کی دختر نیک اختر سے ہوا۔ جن سے تین فرزند سید شاہ سراج الحق، سید شاہ عبد الحق اور سید شاہ فرید الحق اور چھ بیٹیاں ہوئیں جن میں سے ایک کا تین سال کی عمر میں وصال ہو گیا۔
1962ء میں بذریعہ خط اور 1968ء میں بریلی حاضر ہوکر شیخ الاسلام و المسلمین امام احمد رضا خان بریلوی (متوفی 1340ھ) کے چھوٹے فرزند مفتی اعظم ہند مولانا مصطفیٰ رضا خان نوری رحمۃ اللہ علیہ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ اس کے بعد 1977ء میں وہ تبلیغی دورے پر نیروبی (کینیا) گئے۔ واپسی پر فریضہ حج ادا کیا۔ اسی سفر حرمین شریفین میں شیخ العرب والعجم قطب مدینہ مولانا ضیاء الدین مدنی رحمۃ اللہ علیہ کی صحبت میں کئی روز رہے۔
علامہ سید شاہ تراب الحق قادری کو اپنے پیر و مرشد مفتی اعظم ہند مولانا مصطفیٰ رضا خان، اپنے استاد و سسر علامہ قاری مصلح الدین صدیقی اور قطب مدینہ مولانا ضیاء الدین مدنی کے صاحبزادے مولانا فضل الرحمن مدنی سے خلافت و اجازت حاصل رہی۔ قاری مصلح الدین صاحب نے مورخہ 27 جمادی الثانی 1402ھ بمطابق 22 اپریل 1982ء کو بمقام میمن مسجد مصلح الدین گارڈن میں سید شاہ تراب الحق قادری صاحب کو سند خلافت اور اجازت بیعت عطا فرمائی۔[4]
شاہ تراب الحق قادری 1965ء تا 1970ء چھ سال ’’محمدی مسجد‘‘ کورنگی کراچی میں اور 1970ء تا 1982ء بارہ سال ’’اخوند مسجد‘‘ کھارادر کراچی میں امامت و خطابت فرماتے رہے پھر جب 1983ء میں ان کے استاد قاری مصلح الدین نے اپنے وصال سے دو سال قبل ’’میمن مسجد‘‘ مصلح الدین گارڈن سابقہ کھوڑی گارڈن کراچی کی امامت و خطابت ان کے سپرد کی۔ اس وقت سے تا وفات 2016ء یہ ذمہ داری نبھاتے رہے ہیں۔ جس وقت ’’اخوند مسجد‘‘ کھارادر کراچی میں امامت و خطابت کے فرائض انجام دے رہے تھے اس وقت نوجوانوں کی خاصی تعداد ان کے حلقہ درس میں شامل ہوتی اور کئی تنظیمیں قائم ہوئیں جن میں سے چند کے نام یہ ہیں:
سنی باب الاشاعت
تحریک عوام اہلسنت
انجمن اشاعت الاسلام
جمعیت اشاعت اہلسنت
حقوق اہلسنت
اور دعوت اسلامی وغیرہا شامل ہیں۔
تبلیغ و اشاعت میں شاہ تراب الحق نے بھرپور حصہ لیا۔ اپنی تقاریر اور مواعظ کے ذریعے کونے کونے میں اسلام کی دعوت کو عام کیا۔ یہ سلسلہ 1977ء سے شروع ہوا، جب انھوں نے پہلا دورہ نیروبی کینیا کا کیا اور لوگوں کی دعوت پر کئی بار عرب امارات، سری لنکا، بھارت، بنگلہ دیش، برطانیہ، ہالینڈ، جرمنی، بیلجیم، امریکا، ساؤتھ افریقہ، کینیا، تنزانیہ، زمبابوے، عراق، زنزیبار، زمبیا، فرانس، اردن اور مصر تشریف لے گئے اور سرکاری وفد کے رکن کی حیثیت سے انھوں نے اس وقت کے وزیر اعظم محمد خان جونیجو کے ہمراہ عوامی جمہوریہ چین کا دورہ کیا اور ’’کنزالایمان‘‘ اور اہلسنت و الجماعت کا لٹریچر وہاں کے مسلمانوں تک پہنچایا، نیز سرکاری وفد کے رکن کی حیثیت سے اردن اور مصر کا بھی دورہ کیا۔
1956ء میں ضرورت محسوس کی گئی کہ تبلیغ دین اور اشاعت مسلک اہلسنت کی انفرادی کوششوں کو اجتماعی طور پر منظم کیا جائے۔ اس مقصد کے لیے کراچی میں خالص مذہبی جماعت ’’جماعت اہلسنت‘‘ کی داغ بیل ڈالی گئی۔ محمد شفیع اوکاڑوی کے امیر شیخ محمد اسماعیل اس کے ناظم اعلیٰ اور حاجی محمدصدیق خازن مقرر ہوئے۔ 1967ء میں شاہ تراب الحق قادری کو جماعت اہلسنت (پاکستان) کراچی کے حلقہ کورنگی کا امیر منتخب کیا گیا اور جماعت اہلسنت (پاکستان) کے زیر اہتمام شائع ہونے والا ماہنامہ ’’ترجمان اہلسنت‘‘ بھی انھی کی زیر نگرانی تھا اور ’’ماہنامہ افق‘‘ کے ’’روحانی کالم‘‘ میں شرعی مسائل کے جوابات بھی شاہ تراب الحق ہی تحریر کرتے تھے۔
تحریک ختم نبوت اور تحریک نظام مصطفٰی میں بھی انھوں نے بھرپور کردار ادا کیا، تحریک ختم نبوت میں حکومت کی جانب سے جب بہت زیادہ سختی کی گئی، بڑے پیمانے پر گرفتاریاں ہو رہی تھیں، اس وقت وہ مختلف مساجد اور جلسوں میں تقاریر کے ذریعے نوجوانوں میں جوش و ولولہ پیدا کرتے۔
سنہ 1985ء میں شاہ تراب الحق صاحب قادری کراچی کے حلقہ این اے 190سے بھاری اکثریت سے فتح پاکر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ شاہ تراب الحق نے سیاست میں بھرپور کردار ادا کیا۔ جماعت اہلسنت کی خدمت کے حوالے سے وہ متعدد عہدوں پر فائز ہوئے جن میں چند مندرجہ ذیل ہیں:
شاہ تراب الحق نے تفسیر، حدیث، فقہ حنفی، عقائد، تصوف اور فضائل وغیرہ کے موضوعات پر مندرجہ ذیل کتابیں لکھیں:
شاہ تراب الحق قادری طویل علالت کے بعد ایک نجی اسپتال میں جمعرات 6 اکتوبر 2016ء بمطابق 4 محرم 1438ہجری کو 72 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔ نمازجنازہ ان کے صاحبزادے سید شاہ عبد الحق قادری نے پڑھائی اور مریدین، معتقدین، دینی اکابر، سیاسی رہنماؤں اور شہریوں کی بڑی تعداد نے انھیں میمن مسجد مصلح الدین گارڈن (سابقہ کھوڑی گارڈن)میں قاری محمد مصلح الدین کے پہلو میں سپردخاک کیا۔[5][6]