شریف کنجاہی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 13 مئی 1914ء کنجاہ ، ضلع گجرات ، برطانوی پنجاب |
وفات | 20 جنوری 2007ء (93 سال) کنجاہ ، گجرات ، پاکستان |
شہریت | برطانوی ہند پاکستان (1947–2007) |
عملی زندگی | |
مادر علمی | جامعہ پنجاب |
تعلیمی اسناد | ڈاکٹر آف فلاسفی |
پیشہ | ماہرِ لسانیات ، مترجم ، شاعر ، ادبی نقاد |
پیشہ ورانہ زبان | پنجابی ، اردو ، انگریزی ، فارسی |
ملازمت | جامعہ پنجاب ، ادارہ فروغ قومی زبان |
اعزازات | |
باب ادب | |
درستی - ترمیم |
پروفیسر ڈاکٹر شریف کنجاہی (پیدائش: 13 مئی 1914ء – وفات: 20 جنوری 2007ء) پاکستان سے تعلق رکھنے والے پنجابی اور اردو کے ممتاز ادیب، شاعر، ماہرِ لسانیات، محقق، مترجم اور معلم تھے جو قرآن پاک کا پنجابی زبان میں ترجمہ القرآن الکریم کی وجہ سے مشہور و معروف ہیں۔
شریف کنجاہی 13 مئی، 1914ء کو کنجاہ، ضلع گجرات، موجودہ پاکستان میں غلام محی الدین کے گھر پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام محمد شریف تھا۔[1][2]۔ انھوں نے 1930ء میں کنجاہ ہائی اسکول سے میٹرک اور 1933ء میں گورنمنٹ کالج جہلم سے انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کیا۔ زمانہ طالب علمی سے ہی آپ کو شعر و سخن سے گہرا لگاؤ تھا۔ آپ نے اپنی شاعری کا آغازانگریز تسلط کے خلاف اپنی انقلابی شاعری سے کیا، اِسی انقلابی شاعری کی وجہ سے انگریز دور میں آپ کو سرکاری نوکری کے لیے پولیس کلیرنس سرٹیفکیٹ جاری نہیں کیا گیا۔[3]شریف کنجاہی 1943ء میں منشی فاضل اور بی اے کا امتحان جامعہ پنجاب سے بطور پرائیویٹ طالب علم پاس کرنے کے بعد شعبہ تدریس سے وابستہ ہو گئے اورمختلف مقامات پر اپنی خدمات سر انجام دیتے رہے۔1954ء میں ایم اے (اردو) اور 1956ء میں ایم اے (فارسی) کی ڈگری حاصل کی۔[3]
1959ء میں گورنمنٹ کالج کیمبل پور میں پنجابی زبان کی لیکچرار تعنیات ہوئے۔ اس کے بعدآپ کا تبادلہ گورنمنٹ کالج جہلم میں ہوا جہاں آپ اپنی ریٹائرمنٹ تک اپنے فرائض سر انجام دیتے رہے۔1970ء میں انھیں جامعہ پنجاب میں نئے شروع کیے جانے والے شعبہ پنجابی کا رکن بنایا گیا، 1973ء سے 1980ء تک آپ جامعہ پنجاب میں بحیثیتِ استاد خدمات سر انجام دیتے رہے[3]۔ تدریس سے ریٹائرمنٹ کے بعد وہ ایک مختصر عرصے کے لیے مقتدرہ قومی زبان (موجودہ ادارہ فروغ قومی زبان) پاکستان سے بھی وابستہ رہے اور اس کے جریدے اخباراردو کے مدیر رہے۔[2]
شریف کنجاہی صاحب کا شمار جدید پنجابی شاعری کے بانیوں میں ہوتا ہے۔ آپ نے اردو، فارسی اور پنجابی زبان میں شاعری کی، قرآن پاک کا پنجابی ترجمہ کرنے کا شرف بھی شریف کنجاہی صاحب کو حاصل ہے۔ ان کی پہلی پنجابی شاعری کی کتاب جگراتے 1958ء میں مشرقی پنجاب میں شائع ہوئی یہ کتاب37 نظموں کامجموعہ ہے اس کے بعد ان کی دوسری کتاب ارک ہوندی لُو 1958ء میں شائع ہوئی۔[3]
انھوں نے علامہ محمد اقبال کی تصانیف کو پنجابی زبان میں پیش کیا۔ جن میں جاوید نامہ، خطباتِ اقبال اور علم الاقتصاد شامل ہیں۔ اس کے علاوہ آپ نے محمود شبستری کی گلشنِ راز کا منظوم اُردو ترجمہ بھی کیا جس میں اُٹھائے گئے سوالات کا جواب علامہ محمد اقبال نے اپنی مثنوی گلشنِ راز جدید میں دیا تھا۔ شریف کنجاہی نے علامہ محمد اقبال پر تین مضامین بھی تحریر کیے۔ جن میں بانگِ درا کی ابتدائی نظمیں، اقبال کی دُعائیں اور فلسفۂ اقبال: قیامِ یورپ کی روشنی میں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ آپ نے ڈاکٹر جاوید اقبال کی خود نوشت سوانح حیات اپنا گریباں چاک پر تبصرہ بھی تحریر کیا تھا۔[4]
پاکستانی پنجابی شاعری
حکومت پاکستان نے ڈاکٹر شریف کنجاہی کو ان کی ادبی خدمات کے اعتراف کے اعتراف میں تمغا امتیاز اور صدارتی تمغا برائے حسن کارکردگی عطا کیا۔[2]
2008ء میں شریف کنجاہی ایوارڈ کا اجرا کیا گیا جو شعر و ادب میں نمایاں خدمات انجام دینے والوں کو ہر سال دیا جاتا ہے،
شریف کنجاہی 20 جنوری، 2007ء کو کنجاہ، ضلع گجرات، پاکستان میں وفات پاگئے۔[1][2]