شوکت حسین رضوی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 1914ء اعظم گڑھ، اترپردیش، برطانوی ہندوستان |
وفات | 19 اگست 1999ء (84–85 سال) لاہور، پاکستان |
قومیت | پاکستانی |
زوجہ | نور جہاں (1942–1953) |
اولاد | ظل ہما |
عملی زندگی | |
پیشہ | فلم ہدایت کار |
وجہ شہرت | فلمساز، ہدایتکار |
کارہائے نمایاں | |
IMDB پر صفحات | |
درستی - ترمیم |
سید شوکت حسین رضوی (انگریزی: Shaukat Hussain Rizvi) (پیدائش: 1914ء - وفات: 19 اگست، 1999ء) پاکستان سے تعلق رکھنے والے برصغیر پاک و ہند کے نامور فلم ساز اور ہدایت کار تھے۔
شوکت حسین رضوی 1914ء کو اعظم گڑھ، اترپردیش، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے کلکتہ میں اسسٹنٹ پراجیکشنسٹ کی حیثیت سے اپنے کیریئرکا آغاز کیا۔ پھر انھوں نے فلم میکنگ سیکھی۔ ہندوستانی فلمی صنعت کی معروف شخصیات نے شوکت حسین رضوی کی قابلیت کو فوری طور پر تسلیم کر لیا۔ اس وقت کے نامور پروڈیوسر سیٹھ دل سکھ پنچولی انھیں کلکتہ سے لاہور لے آئے۔ یہاں انھوں نے کئی فلموں کی ایڈیٹنگ کی۔ جن میں گل بکاؤلی (1939ء)، خزانچی (1941ء) وغیرہ شامل ہیں۔ ایڈیٹر کی حیثیت سے ان کی فلموں یملا جٹ اور دوست کو بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے بعد دل سکھ پنچولی نے انھیں اپنی اگلی فلم خاندان (1942ء) کی ہدایات کے فرائض سونپے۔ خاندان نے پورے ہندوستان میں تہلکہ مچا دیا۔ اس میں نور جہاں اور پران کی اداکارانہ صلاحیتیں کھل کر سامنے آئیں۔ نورجہاں نے نہ صرف شائقین فلم کے دلوں کو فتح کر لیا بلکہ شوکت حسین رضوی کا دل بھی جیت لیا۔ خاندان کی کامیابی کے بعد شوکت حسین رضوی اور نور جہاں ممبئی چلے گئے جہاں رضوی نے اپنی اگلی فلم نوکر (1943ء) کی ہدایات دیں۔ یہ فلم سعادت حسن منٹو کے ایک افسانے سے ماخوذ تھی۔ رضوی نے اسکرپٹ میں بہت سی تبدیلیاں کر دیں جس کی وجہ سے یہ فلم باکس آفس پر ناکام ہو گئی۔ اسی سال نورجہاں اور شوکت حسین رضوی رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئے۔ ان کے ہاں تین بچے اکبر حسین رضوی، اصغر حسین رضوی اور ظل ہما ہوئے۔ اس کے بعد اس جوڑے (شوکت حسین رضوی اور نورجہاں) نے کئی فلمیں بنائیں۔ شوکت رضوی ان فلموں کے یا تو پروڈیوسر تھے اور یا ڈائریکٹر۔ جب نور جہاں نے ان کی فلموں میں اداکاری بھی کی اور گلوکاری بھی۔ ان فلموں میں زینت اور جگنو شامل ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 1944ء میں بننے والی فلم دوست میں شوکت حسین رضوی نے معاون اداکار کے طور پر کام کیا اور اس فلم میں وہ نور جہاں کے بھائی بنے تھے۔ اس فلم کی ہدایات بھی شوکت حسین رضوی نے دی تھیں۔ اس فلم کے گیت شمس لکھنوی نے تحریر کیے تھے جو بہت مشہور ہوئے۔[1]
1947ء میں تقسیم ہند کے بعد شوکت حسین رضوی اور نورجہاں اپنے تینوں بچوں سمیت پاکستان چلے آئے۔ آتے وقت شوکت حسین رضوی وہ کیمرا بھی ساتھ لے آئے جس سے انھوں نے اپنی فلم جگنو کی شوٹنگ کی تھی۔ پاکستان آنے کے بعد نور جہاں اور شوکت رضوی نے تین سال تک کوئی کام نہ کیا۔ اس عرصے کے دوران شوکت حسین رضوی نے ملتان روڈ پر شاہ نور اسٹوڈیو قائم کیا جہاں انھوں نے اپنی پہلی پنجابی فلم چن وے کی شوٹنگ شروع کی جو 1951ء میں ریلیز ہوئی۔ شوکت حسین رضوی اس فلم کے پروڈیوسر اور معاون ہدایتکار تھے۔ اس فلم نے بے مثال کامیابی حاصل کی۔ لیکن اس کا کریڈٹ بہرحال شوکت رضوی کو نہیں جاتا تھا کیونکہ وہ اس فلم کے معاون ہدایتکار تھے۔ اس کے بعد معروف ڈراما نویس امتیاز علی تاج نے شوکت رضوی کی فلم گلنار کی ہدایات دیں۔ اس دوران ان کے اپنی اہلیہ نورجہاں سے شدید اختلافات پیدا ہو گئے اور دونوں میں علیحدگی ہو گئی۔ نورجہاں کو اپنی بیٹی ظل ہما اپنے پاس رکھنے کے لیے شاہ نور اسٹوڈیو کے حصے سے دستبردار ہونا پڑا جس سے شوکت رضوی کے کیریئر کو شدید دھچکا لگا کیونکہ وہ نور جہاں کے شوہر کی حیثیت سے بھی اہم مقام حاصل کرچکے تھے۔ اس کے بعد انھوں نے اس وقت کی معروف اداکارہ یاسمین رضوی سے شادی کرلی جن سے ان کے دو بیٹے شہنشاہ حسین رضوی اور علی مجتبیٰ رضوی پیدا ہوئے۔ یہ شادی کامیاب ثابت ہوئی جس سے شوکت رضوی اور یاسمین رضوی دونوں کو فائدہ ہوا۔ نور جہاں سے طلاق کے بعد انھوں نے صرف تین اردو فلمیں بنائیں جن کے نام تھے جان بہار، عاشق اور دلہن رانی۔ انھوں نے جان بہار کا ایک گیت گوانے کے لیے اپنی سابقہ اہلیہ نورجہاں سے کہا اور انھوں نے ہامی بھرلی۔ یہ گیت مسرت نذیر پر پکچرائز ہوا جس نے شائقین فلم کو مسحور کر دیا۔دلہن رانی کے فلاپ ہونے کے بعد شوکت حسین رضوی کو مایوسیوں نے آن گھیرا۔ انھوں نے فلموں سے ریٹائرمنٹ لے لی جس کے بعد ان کے چاروں بیٹوں نے شاہ نور اسٹوڈیو کا انتظام سنبھال لیا۔ افسوس آج وہی شاہ نور اسٹوڈیو خستہ حال ہے اور اس تاریخی اسٹوڈیو کی یہ حالت دیکھ کر افسوس ہوتا ہے۔ شوکت حسین رضوی بڑے وجیہہ اور دلکش نوجوان تھے۔ سعادت حسن منٹو نے ان کے بارے میں کہا تھا کہ وہ (شوکت رضوی) ایک دراز قد اور دلکش نوجوان ہے جو انتہائی خوش لباس ہے۔ جوانی میں انھیں کھیلوں سے بھی دلچسپی تھی اور وہ 1930ء کے اوائل میں کلکتہ میں فٹ بال کھیلتے تھے۔ شوکت حسین رضوی کو یہ کریڈٹ بھی جاتا ہے کہ انھوں نے پاکستانی فلمی صنعت کی نشو و نما میں بھی اہم کردار ادا کیا۔[1]
شوکت حسین رضوی کا فلم جگنو میں دلیپ کمار کا بطور ہیرو انتخاب بھی ان کی فراست کابین ثبوت تھا۔ انھوں نے ایک ناکام اداکار کو میڈم نورجہاں کے مقابل کاسٹ کیا کیونکہ دلیپ کمار سے پہلے انھوں نے جتنے اداکاروں کو کاسٹ کیا وہ شوکت رضوی کی توقعات پر پورا نہیں اترے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ سب میڈم نورجہاں کے سامنے اداکاری کرتے ہوئے شدید گھبراہٹ کا شکار ہو جاتے تھے۔ لیکن دلیپ کمار نے پہلے ہی شاٹ میں زبردست اعتماد کا مظاہرہ کیا اور مکالموں کی ادائیگی کے خوبصورت انداز سے شوکت رضوی اور سیٹ پر موجود تمام لوگوں کو ششدر کر دیا۔ اس پہلے شاٹ کے موقع پر پرتھوی راج کپور بھی موجود تھے۔ انھوں نے وہیں شوکت رضوی سے کہا تھا کہ یاد رکھنا یہ لڑکا ایشیا کا سب سے بڑا اداکار ثابت ہوگا۔ 1988ء میں جب دلیپ کمار پہلی بار پاکستان کے دورے پر آئے تھے تو انھوں نے خصوصی طور پر شوکت حسین رضوی سے ملاقات کی تھی۔ دونوں نے اس ملاقات کے دوران اس سنہری دور کی یادوں کو تازہ کیا۔[1]
دلیپ کمار نے ایک مرتبہ کہا تھا:
” | میں خوش نصیب ہوں کہ مجھے شوکت حسین رضوی جیسے ہدایتکار نے اپنی فلم جگنو میں نور جہاں کے مقابل ہیرو کاسٹ کیا۔ اس فلم کی شاندار کامیابی کے بعد پھر میں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا[1]۔ | “ |
شوکت حسین رضوی 19 اگست، 1999ء کو لاہور، پاکستان میں وفات پاگئے۔ وہ لاہور میں شاہ نور اسٹوڈیو کے احاطے میں آسودۂ خاک ہیں۔[1][2]