شیخ رکن الدین ابو الفتح | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 24 نومبر 1251ء ملتان |
وفات | 9 مارچ 1335ء (84 سال) ملتان |
مدفن | مقبرہ شاہ رکن عالم |
مذہب | اسلام |
مکتب فکر | اہل سنت حنفی سہروردی |
والد | صدر الدین عارف |
درستی - ترمیم |
آپ کا اسم گرامی رکن الدین ، لقب فضل اللہ اور کنیت ابو الفتح ہے. [1] آپ شیخ صدر الدین عارف کے بڑے صاحبزادے اور خلیفہ تھے۔ آپ کے دادا بہاؤ الدین زکریا ملتانی تھے۔ آپ کی والدہ ماجدہ کا نام بی بی راستی والدہ شاہ رکن عالم ہے جو فرغانہ کے شاہ جمال الدین کی صاحبزادی تھیں،اور بہاؤ الدین زکریا سے غیر معمولی عقیدت رکھتی تھیں۔ حافظ قرآن مجید تھیں ، تلاوت قرآن مجید سے غیر معمولی شغف رکھتی تھیں روزانہ ایک قرآن مجید ختم کرتی تھیں۔ [2]
آپ کا سلسلۂ نسب یہ ہے رکن الدین عالم بن صدرالدین عارف بن بہاو الدین زکریا بن شیخ وجیہ الدین المقلب بہ شیخ محمد غوث بن سلطان ابا بکر بن سلطان جلال الدین بن سلطان علی قاضی بن سلطان حسین بن سلطان عبد اللہ بن سلطان مطرفہ بن سلطان خذیمہ بن امیر ہازم بن امیر تاج الدین بن عبد الرحمن بن عبد الرحیم بن امیر مہار بن اسد بن ہاشم بن عبد مناف [3]
خزینۃ الاصفیاء میں ہے کہ ایک دفعہ چاند رات کو بی بی راستی سلام کے لیے اپنے خسر شیخ بہاو الدین زکریا کی خدمت میں حاضر ہوئیں ، اس وقت شیخ رکن الدین عالم شکم مادر میں تھے۔ شیخ بہاو الدین ان کی تعظیم کے لیے کھڑے ہو گئے اور غیر معمولی تکریم سے پیش آئے۔ بی بی راستی خسر کا خلاف معمول طرز عمل دیکھ کر متعجب ہوئیں۔ شیخ نے ان کا استعجاب کو محسوس کر کے فرمایا : بی بی یہ تمھاری تعظیم نہیں ہے بلکہ یہ اس بچے کی تعظیم ہے جو تمھارے پیٹ میں ہے اور جو ہمارے خاندان کا روشن چراغ ہو گا۔ [4]
آپ کی ولادت باسعادت 9 رمضان المبارک 649ھ بروز جمعتہ المبارک کو ہوئی۔ آپ کی ولادت کی خوشی میں آپ کے دادا جان شیخ الاسلام بہاو الدین نے ملتان کے غرباء اور مساکین کے دامن زر و جواہر سے بھر دیے۔ عقیقہ کے موقع پر آپ کے سر کے بال تراشے گئے جو اب تک تبرکات میں محفوظ ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کی ولادت خاندان غوثیہ کے لیے کتنی زیادہ اہمیت کی حامل تھی۔ شیخ الاسلام بہاو الدین زکریا ملتانی نے مولود مسعود کا نام رکن الدین رکھا جو بعد میں آپ شاہ رکن عالم کے نام سے مشہور ہوئے۔ آپ کی والدہ ماجدہ بی بی راستی آپ کو دودھ پلانے سے پہلے وضو کر لیتی تھیں۔ والدہ حافظہ قرآن تھیں اسی لیے لوری کی بجائے قرآن پاک کی تلاوت کیا کرتی تھیں۔ اگر اس دوران اذان کی آواز سنائی دیتی تو حضرت رکن الدین دودھ پینا چھوڑ دیتے اور غور سے اذان سننے لگتے۔ رات کو جب بی بی صاحبہ تہجد کے لیے بیدار ہوتیں تو آپ بھی جاگ پڑتے۔ ام المریدین بی بی راستی نے گھر کی نوکرانیوں کو حکم دے رکھا تھا کہ ننھے رکن الدین کو سوائے اسم ذات کے اور کسی لفظ کی تلقین نہ کریں اور نہ کوئی دوسرا لفظ ان کی موجودگی میں بولیں۔ اس احتیاط کا نتیجہ یہ نکلا کہ جب شاہ عالم بولنے کے قابل ہوئے تو سب سے پہلے جو لفظ زبان مبارک سے نکلا وہ اللہ عزوجل کا اسم گرامی تھا۔
ایک دن جب شاہ رکن الدین کی عمر مبارک چار سال تھی شیخ الاسلام بہاو الدین چار پائی پر بیٹھے تھے اور دستار مبارک سر سے اتار کر چار پائی پر رکھ دی تھی۔ حضرت صدر الدین عارف پاس ہی مودب بیٹھے تھے کہ ننھے رکن الدین کھیلتے کھیلتے دستار مبارک کے قریب آئے اور اٹھا کر اپنے سر پر رکھ لی۔ والد ماجد نے ڈانٹا کہ یہ بے ادبی ہے مگر دادا حضور نے فرمایا کہ صدر الدین پگڑی پہننے سے اس کو نہ روکو وہ اس کا مستحق ہے اور یہ پگڑی میں اس کو عطا کرتا ہوں۔ چنانچہ وہ دستار مبارک محفوظ کر دی گئی اور شاہ رکن الدین عالم اپنے والد بزرگوار کے بعد مسند خلافت پر متمکن ہوئے تو وہ دستار مبارک آپ کے سر پر رکھی گئی۔ [5]
شیخ رکن الدین نے علوم ظاہری کی تعلیم اپنے والد محترم سے حاصل کی اور روحانی فیوض اپنے دادا حضور بہاو الدین زکریا سے حاصل کیے۔ یہ دونوں بزرگ آپ سے بے حد محبت رکھتے تھے اور شیخ رکن الدین بھی ان دونوں بزرگوں کا اس قدر ادب کرتے تھے کہ کبھی ان سے آنکھ اٹھا کر بات نہ کرتے اور نہ ان کے سامنے بلند آواز سے بولتے ، آپ کے اس ادب کو دیکھ کر حضرت شمس الدین تبریزی نے آپ کو عالم کا خطاب عطا کیا جس کی وجہ سے آپ رکن عالم کے نام سے مشہور ہوئے۔ انھیں دونوں سے آپ نے ظاہری و باطنی کمال حاصل کیے۔ [8]
شیخ رکن الدین عالم اپنے والد محترم صدر الدین عارف کے مرید و خلیفہ اعظم تھے۔ آپ کے مرید اور خلیفہ حضرت جہانیاں جہاں گشت اپنے ملفوظات میں فرماتے ہیں کہ جب شیخ رکن الدین قدس سرہ کا کام کمال کو پہنچا تھا تو تہجد کے وقت سے دوپہر تک ریاضت و عبادت میں مشغول رہتے ، 36 سال کی عمر میں جب اپنے والد بزرگوار کی مسند پر جلوہ افروز ہوئے تو ہر گوشہ سے لوگ خدمت میں حاضر ہو کر فیض یاب ہوئے۔ جو بھی سائل آتا حاجت روائی ضرور فرماتے۔ مجلس میں جس کے دل میں کوئی بات آتی تو آپ کو اس کا کشف حاصل ہو جاتا اور اس کی دلجوئی فرماتے۔ [9]
آپ کا سلسلہ طریقت یہ ہے۔
صدر الدین عارف، بہاؤ الدین زکریا ملتانی، ابو الفتوح شہاب الدین سہروردی، ضیاء الدین سہروردی، شیخ ابو عبد اللہ، شیخ اسود احمد نیوری، شیخ ممتاز علی دنیوری، خواجہ جنید بغدادی، خواجہ سری سقطی، خواجہ معروف کرخی، خواجہ داؤد طائی، خواجہ حبیبب عجمی، خواجہ حسن بصری، حضرت علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہہ، جناب رسول اللہ ﷺ [10]
شیخ رکن الدین کے عوام کے علاوہ بادشاہوں سے بھی تعلقات تھے اور امرا بھی آپ کے معتقد اور غلام تھے۔
شیخ رکن الدین کے دور میں سلطان علاؤ الدین خلجی دہلی کے تخت پر متمکن تھے۔ شیخ رکن الدین ایک مرتبہ ملتان سے دہلی تشریف لے گئے تو سلطان نے شاہان شان و شوکت سے آپ کا استقبال کیا اور بڑے اعزاز و اکرام کے ساتھ اپنے عمل میں لے گیا ، بہت سا روپیہ نذر کیا۔ رخصت کے وقت مزید رقم پیش کی۔ شیخ نے رقم قبول تو فرما لی مگر ساری وہی فقراء میں تقسیم کر دی اور ساتھ کچھ نہ لائے۔
علاؤ الدین خلجی کی وفات کے بعد اس کا بیٹا ہندوستان کے تخت و تاج کا ملک بنا اور قطب الدین خلجی کے نام سے مشہور ہوا۔ قطب الدین خلجی کے تخت نشین ہوتے ہی درباری خوشامدیوں نے اسے یوں گھیرے میں لے لیا کہ وہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے عاری ہو گیا۔ جو درباریوں نے کان میں ڈالا آنکھ بند کر کے اس کی حقیقت یہ ایمان لے آیا۔ شاہی درباریوں نے دلی میں خواجہ نظام الدین اولیاء کی شہرت و دبدبہ دیکھا تو آپ پر لوٹنے لگے۔ وہ خیال کرتے تھے کہ ہم شاہی دربار سے وابستہ ہیں لہذا عوام ہماری زیادہ عزت کرے گی اور اپنی مشکلات و مصائب ہمارے آگے آ کر بیان کرے گی تا کہ ہم اسے شہنشاہ ہند تک پہنچا سکیں یا اپنے اختیارات سے کام لے کر انھیں دور کر دیں لیکن یہ لوگ تو بھولے سے بھی ہمارے پاس نہیں آتے اور خواجہ صاحب کے گرد گھیر ڈالے بیٹھے رہتے ہیں تو انھوں نے بادشاہ کو خواجہ کے خلاف بھڑکانہ شروع کر دیا۔ قطب الدین بھی اب خواجہ سے عناد رکھنے لگا اور ان کا وجود اپنی اور اپنی سلطنت کی سالمیت کے لیے حد درجہ خطرناک سمجھنے لگا چاہتا تھا کہ کسی طرح خواجہ نظام الدین کو زک پہنچا کر دلی سے نکلوا دے لیکن پھر ان کی درویشی و عظمت کے آگے بے بس ہو جاتا اور سوچتا کہیں یہ میرے حق میں ایسی بدعا نہ کر دیں کہ مجھ ہی کو دلی کی مسند چھوڑنی پڑ جائے۔ چالاک اور مفسد درباریوں نے جب بادشاہ کو اس کش مکش میں دیکھا تو اسے کہنے لگے اگر آپ ملتان سے شاہ رکن عالم کو دہلی بلائیں تو وہی مقاصد حاصل کر سکتے ہیں جو آپ کے ذہن میں ہیں۔ بادشاہ نے سوالیہ انداز میں درباریوں کی طرف دیکھ کر پوچھا وہ کیسے؟ ان مفسد درباریوں نے عیاری سے کہا شاہ رکن عالم اور خواخہ نظام الدین اولیاء کی آپس میں بہت کم بنتی ہے۔ اس طرح جب ایک شہر میں دونوں یکجا ہو جائیں گے تو دونوں میں رنجش بڑھے گی اور پھر ہم اسی رنجش سے بھرپور فائدہ اٹھا لیں گے۔ بادشاہ کو یہ تجویز بڑی بھائی۔ اس نے فوراً شاہ رکن عالم کی طرف ایک دعوت نامہ بھیجا اور دلی آنے کے لیے پر زور اصرار کیا۔ شیخ رکن عالم کو اچھی طرح علم تھا کہ اس وقت دعوت نامہ کے پس پردہ کیا عوامل ہیں۔ آپ بادشاہ کی عیاری کو بھی سمجھتے تھے لیکن دلی جانا بھی ضروری خیال کیا۔ چنانچہ آپ نے فوراً اپنے عقیدت مندوں اور ارادت مندوں کو ساتھ لیا اور دلی کا سفر شروع کر دیا۔ ادھر نظام الدین اولیاء کو معلوم ہو چکا تھا کہ بادشاہ اور اس کے خوشامد پسند کھلاڑی کیا کھیل کھیل رہے ہیں تو انھوں نے اس کے توڑ کا یہی حل نکالا کہ پہلے خود شاہ رکن عالم کے استقبال کے لیے جائیں اس لیے انھیں جیسے ہی اطلاع ملی ہے کہ شاہ رکن عالم دہلی کے نزدیک پہنچ چکے ہیں تو آپ بھی اپنے ارادت مندوں ، عقیدت مندوں اور مریدوں کے ساتھ دلی شہر سے نکل کر ذرا آگے جا کر رکن عالم کے استقبال کے لیے کھڑے ہو گئے اور جیسے ہی شاہ رکن عالم دلی کے نزدیک پہنچے آپ کا انھوں نے پرجوش خیرمقدم کیا۔ رات بھر دونوں بزرگ ایک خیمے میں بیٹھے شرعی مسائل پر گفتگو کرتے رہے۔ صبح ہوئی تو نظام الدین اولیاء نے شاہ رکن عالم سے الودعی مصافحہ کیا اور پھر اپنے عقیدت مندوں کے ساتھ دہلی واپس کوچ کر گئے۔ شاہ رکن عالم نے بھی نظام الدین اولیاء کے جاتے ہی دلی شہر کی طرف کوچ کرنے کا حکم صادر کیا۔ بادشاہ شہر کی فصیل کے پاس شاہی افراد کے ساتھ کھڑا آپ کے استقبال کے لیے تیار تھا۔ چنانچہ جیسے ہی اسے شاہ رکن عالم کی آمد کی اطلاع ملی وہ آگے بڑھ کر آپ کے استقبال کرنے والوں میں شامل ہو گیا اور آپ کے گھوڑے کی لگام تھام کر کچھ فاصلہ آگے بڑھنے کے بعد آپ کو گھوڑے سے اتار کر ایک دوسری آرام دہ سواری پر بٹھایا گیا۔ پھر یہ قافلہ شاہی محل کی طرف روانہ ہوا۔ شاہی محل کے پھاٹک پر پہنچ کر بادشاہ نے جو پیچھے نظر دوڑائی تو اسے انسانوں کے سروں کا اژدھم نظر آیا جو شاہ رکن عالم کے استقبال کی خاطر ان کے پیچھے چلا آیا تھا۔ بادشاہ نے یہ موقع مناسب گردانا اور شیخ رکن کو وہیں ٹھہرا کر آپ سے عوام کے سامنے مخاطب ہوا حضرت آپ کا دلی شہر میں سب سے پہلے کس نے استقبال کیا۔ شیخ رکن الدین ملتانی بھی دلی کے تاجدار کی بات خوب سمجھ رہے تھے لہذا انھوں نے بلند آواز سے مجمع کی طرف دیکھ کر کہا کہ لوگو تمھارے اس شہر میں مجھ ملتانی درویش کا سب سے پہلے سواگت اس نے کیا جو تمھارے شہر کا سب سے زیادہ متقی اور پرہیز گار انسان ہے جو خدا کا محبوب بندہ ہے۔ بادشاہ جو اپنی دانست میں آپ کا استقبال کرنے والوں میں سب سے آگے تھا یہ سن کر پھولا نہ سمایا جا رہا تھا اس نے پھر بھی مزید تصدیق کے لیے آپ سے کہا کہ حضرت وہ خوش نصیب کون تھا اس کے نام سے بھی تو مطلع فرمائیں تا کہ دلی کے لوگ جان لیں کہ ان کے شہر کا سب سے پرہیزگار اور عبادت گزار انسان کون ہے۔ یہ سن کر شاہ رکن عالم ملتانی نے مجمع عام کی طرف مسکراتے ہوئے دیکھا کر کہا لوگو تمھارے شہر میں داخل ہونے سے پہلے میرا جس شخص نے سب سے پہلے استقبال کیا وہ محبوب الہی خواجہ نظام الدین بدایونی تھے اور تم لوگ اچھی طرح سے جان لو کہ وہ دلی کے سب سے اچھے بندے اور خدا کے نزدیک محبوب ترین بشر ہیں۔ شاہ رکن عالم کا معمول تھا کہ جب کبھی بادشاہ کے ہاں جاتے تو راستے میں اپنی سواری ٹھہراتے جاتے تا کہ جو لوگ بادشاہ کی خدمت میں عرضیاں دینا چاہتے ہیں وہ ان کے حوالے کر دیں۔ بعض کی معروضات زبانی بھی سنتے اور بادشاہ سے بیان کرتے۔ شاہی محل کے پاس پہنچ کر دو دروازوں تک سوار ہی چلے جاتے اور تیسرے دروازے پر سلطان بڑی عزت کے ساتھ انھیں دربار میں لے جاتا اور مودب دوزانو ہو کر بیٹھ جاتا پھر شیخ ان کے سامنے لوگوں کی درخواستیں پیش کرتے۔ بادشاہ ہر درخواست کو غور سے پڑھتا اور سنتا اور اس کے اوپر اسی وقت حکم لکھ دیتا۔ واپسی پر شیخ ان تمام درخواستوں کو ساتھ لے جاتا اور راستے میں درخواست دینے والوں کو دیتے جاتے۔
سلطان غیاث الدین تغلق سے بھی شیخ رکن الدین کے تعلقات خوشگوار رہے۔ ایک مرتبہ جب بادشاہ بنگلہ کی مہم سے کامیاب و کامران ہو کر واپس آ رہا تھا تو شیخ رکن عالم خاصی دور تک اس کے استقبال کے لیے گئے تھے۔ رات کو سلطان کے ساتھ جس جگہ کھانا کھا رہے تھے اس جگہ کے متعلق کشف باطن سے شیخ کو معلوم ہوا کہ اس کی دیوار اچانک گر جائے گی ، چنانچہ شیخ کھانا چھوڑ کر باہر چلے آئے اور سلطان سے بھی کہا کہ باہر آ جائے مگر اس نے باہر آنے میں دیر کر دی اور دیوار گر گئی جس کے نیچے آ کر سلطان دب کر ہلاک ہو گئے۔
غیاث الدین تغلق کی وفات کے بعد سلطان محمد تغلق سریر آرائے سلطنت ہوا اس سے بھی حضرت رکن الدین کے تعلقات قائم تھے۔ ایک بار اس کے یہاں آکر مہمان ہوئے تو وہ زمانہ محبوب الہی کے مرض الموت کا تھا۔
شاہ رکن عالم کو نظام الدین اولیاء سے بہت محبت تھی اور خواجہ نظام الدین اولیاء بھی آپ کی بہت عزت کیا کرتے تھے چنانچہ فرماتے ہیں میں ملتان سے دہلی صرف خواجہ کی زیارت کے لیے گیا تھا چنانچہ جب سلطان علاؤ الدین استقبال کو آیا تو خواجہ نظام الدین بھی آپ کی عزت افزائی کے لیے وہاں تشریف لائے تھے۔ اگرچہ آپ سلطان کے ہاں مہمان ٹھہرے مگر زیادہ وقت خواجہ نظام الدین اولیاء کے ساتھ بسر کیا کرتے تھے۔
دلی میں اگرچہ شاہ رکن عالم جب بھی تشریف لاتے تو شاہی دربار کے مہمان کی حثیت میں رکھتے اور انھیں محل میں ہی قیام کے لیے مجبور کیا جاتا لیکن آپ اپنا زیادہ وقت نظام الدین اولیاء کی صحبت میں گزارنا پسند فرماتے۔ اکثر گھنٹوں دونوں بزرگ سر جوڑے سیر حاصل گفتگو میں محو پائے جاتے ہیں اور لوگ دونوں بزرگان دین کی یہ مثالی سنگت اور دوستی رشک سے دیکھتے جو ایک دوسرے کے عہدے سے بے نیاز آپس میں دو دوستوں کی طرح باتیں کرتے رہتے۔ اکثر یوں بھی ہوتا کہ نظام الدین اولیاء اور شاہ رکن عالم دلی کی کسی مسجد میں نماز کے لیے جاتے اور جب نظام الدین اولیاء نماز ختم کر پاتے تو اس جگہ آن کھڑے ہوتے جہاں شاہ رکن عالم عبادت الہی میں مشغول ہوتے۔ انھیں عبادت میں مصروف دیکھ کر خواجہ صاحب چپ چاپ خاموشی سے ان کے پیچھے بیٹھ جاتے اور ان کی نماز ختم کرنے تک وہیں بیٹھے رہتے۔
حضرت محبوب الہی کی وفات کے دس سال بعد حضرت شیخ رکن الدین اپنے محبوب حقیقی سے جا ملے۔ وفات سے تین ماہ پہلے لوگوں سے ملنا جلنا اور بولنا بالکل ترک کر دیا۔ صرف نماز کے لیے حجرہ سے باہر آتے تھے اور پھر واپس لوٹ جاتے۔ 735ھ رجب کی 16 تاریخ بروز جمعرات نماز مغرب کے بعد اوابین پڑھ رہے تھے کہ سجدہ کی حالت میں جان جانہ آفرین کے سپرد کر دی۔ مرقد مبارک آپ کا ملتان میں آپ کے جد امجد اور والد ماجد کے مزار قریب ہی ہے۔ آپ کی غذا بہت ہی قلیل تھی۔ ایک پیالہ دودھ میں کچھ میوے ڈال کر دیے جاتے تھے اسی سے چند لقمے تناول فرمائے تو گھر والوں نے ایک طبیب سے قلت غذا کی شکایت کی طبیب نے غذا مانگوا کر دیکھی اور اس میں سے چند لقمے خود کھائے ، کھانے کے بعد اس نے گرانی محسوس کی اور کہا اب سات دن کھانے کی حاجت نہ ہو گی کونکہ بزرگوں کے کھانے میں کمیت سے زیادہ کیفیت ہوتی ہے۔ آپ وضو فرماتے تو اس کے بعد دعا پڑھتے ایک روز وضو سے فارغ ہوئے تو دعا نہیں پڑھی بلکہ صرف الحمد للہ کہا۔ خادم خاص نے آپ کے نانا سے عرض کر دیا کہ آج حضرت نے صرف الحمد للہ کہا اور کوئی دعا نہیں پڑھی۔ وہ حضرت شاہ رکن عالم کے پاس آئے اور واقعہ دریافت کیا۔ شاہ رکن عالم نے فرمایا آج وضو میں دنیا اور آخرت کا خیال دل میں نہیں آیا تو میں سمجھا کہ آج میرے وصال کا دن ہے اس لیے صرف الحمد للہ کہا۔ [12]
آپ کا مقبرہ تاریخی اور تعمیری خصوصیات کے باعث بجا طور پر ملتان کی قدیم عظمت کا نشان کہا جاتا ہے۔ یہ گنبد کے اعتبار سے ایشیا کا دوسرا سب سے بڑا گنبد ہے۔ یہ عظیم الشان عمارت اسلامی تعمیر کا حسین امتزاج ہے اور اپنی خوبصورتی کے باعث زائرین کی نگاہیں خیرہ کر دیتی ہے۔ یہ مقبرہ سلطان غیاث الدین تغلق نے حضرت غوث العالمین کے قرب میں دفن ہونے کی خاطر اپنے ذاتی خرچ سے تعمیر کرایا تھا مگر اتفاق سے سلطان کی موت دہلی میں واقع ہوئی۔ سلطان کو دہلی میں دفن کیا گیا۔ سلطان کے جانشین محمد شاہ تغلق نے جو شاہ رکن عالم کا معتقد تھا مقبرہ حضرت شاہ عالم کو دے دیا۔ شاہ رکن عالم اسے عبادت گاہ کے طور پر استعمال فرماتے رہے مگر محض اس خیال سے کہ ممکن ہے اس کی تعمیر بیت المال کے روپے سے کی گئی ہو دفن ہونا پسند نہ فرمایا۔ زندگی کے آخری لمحات میں آپ نے وصیت فرمائی تھی کہ مجھے جد امجد حضرت غوث العالمین کے قدموں میں دفن کیا جائے۔ وصیت کے مطابق آپ کو حضرت بہاو الدین زکریا جدبزرگوار کو پائنتی دفن کیا گیا۔ مگر بعد میں حضرت سلطان فیروز شاہ تغلق دہلی سے ملتان آیا تو اس نے تمام حال معلوم کر کے صاحب سجادہ حضرت کے حقیقی برادر کو اس بات کا یقین دلایا کہ اس مقبرہ کی تعمیر بیت المال سے نہیں ہوئی بلکہ سلطان غیاث الدین تغلق نے اپنی ذاتی آمدنی سے جب کہ وہ دیپال پور کے گورنر تھے تعمیر کرایا تھا لہذا فیروز شاہ تغلق نے حضرت شاہ عالم کے تابوت کو خود کندھا دے کر اس مقبرہ میں منتقل کیا اس وقت ہزاروں کی تعداد میں مریدین و عوام موجود تھے۔
آپ سات سال کی عمر سے نماز اور روزہ کے پابند تھے۔ نماز جماعت کے ساتھ پڑھتے تھے ، نماز تہجد ، اشراق و چاشت اور نوافل کے پابند تھے۔ رمضان کے علاوہ عاشورہ محرم میں بھی روزے رکھتے تھے۔ ذکر خفی و جلی و مراقبہ محاسبہ آپ کے معمولات میں سے تھے۔ ریاضت ، عبادت اور مجاہدہ میں مشغول رہتے تھے۔ کشف قلوب ، طے ارض و طے لسان میں دس سال کی عمر سے ممتاز تھے ، کمالات صوری و معنوی آپ کو پچیس سال کی عمر سے حاصل تھے۔ غرض و عبادت ، ریاضت ، زہد و تقوی ، تفرید و عفو وفا ، جو دو سخا ، نصیحت و شفقت ، الفت و مروت ، بردباری ، کسر نفی اور اخلاق میں بے نظیر تھے۔ خوراک آپ کی کم تھی لیکن کھانا اچھا کھاتے تھے۔ جو حاجت مند آپ کے پاس آتا خالی ہاتھ نہیں جاتا چونکہ آپ لوگوں کی حاجت پوری کرتے تھے اس واسطے لوگوں میں آپ قبلہ حاجات مشہور ہوئے۔ جو نذرانہ آتا آپ اس کو خرچ کر دیتے تھے۔ اس میں سے کچھ نہیں بچاتے تھے۔ کسر نفی کا یہ عالم تھا کہ جب پالکی میں نکلتے تو آپ کے دونوں ہاتھ باہر نکلے ہوئے ہوتے اور اس لیے ایسا کرتے کہ شاید کسی بخشے ہوئے کا ہاتھ آپ کے ہاتھ سے لگ جائے تو آپ بھی بخشے ہوئے ہو جائیں۔ آپ علما ، فضلاء اور درویشوں کا بہت خیال رکھتے تھے ، ان کی بہت عزت اور خاطر مدارت کرنے میں کوئی دقیقہ اٹھا کر نہیں رکھتے تھے۔ آپ کسی حد تک لوگوں کی امداد کرنے پر آمادہ رہتے تھے ، وہ اس سے ظاہر ہے کہ ایک امیر آدمی آپ کی خدمت میں آیا ، مرید ہوا اور گناہوں سے توبہ کی۔ شاہ رکن عالم نے اس کو کلاہ عطا فرمائی۔ ایک درویش نے اس پر اعتراض کیا تو آپ نے فرمایا
آپ فرماتے ہیں کہ
شاہ رکن عالم کی کوئی اولاد نہیں تھی اس لیے آپ کی وفات کے بعد آپ کے بھائی حضرت عماد الدین اسماعیل آپ کے سجادہ نشین ہوئے۔ ان کے علاوہ آپ کے مشہور خلفاء میں سید جلال الدین بخاری ملقب بہ مخدوم جہانیاں جہاں گشت ، شیخ عثمان سیاح ، حاجی شیخ صدر الدین عارف ، حاجی چراغ دین ، شیخ حمید الدین ملقب بہ سلطان التارکین قرشی وغیرہ شامل ہیں۔ [14]