شیریں رتناگر | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 20ویں صدی[1] |
عملی زندگی | |
مادر علمی | ساورتی بائی پھالے پونہ یونیورسٹی |
پیشہ | ماہر انسانیات ، مصنفہ ، ماہر آثاریات ، تاریخ دان |
پیشہ ورانہ زبان | انگریزی [2] |
نوکریاں | جواہر لعل نہرو یونیورسٹی |
درستی - ترمیم |
شیریں ایف رتناگر ایک بھارتی ماہر آثار قدیمہ ہے جن کا کام وادیٔ سندھ کی تہذیب پر مرکوز ہے۔ وہ کئی کتابوں کی مصنفہ ہیں۔
رتناگر کی تعلیم دکن کالج، پونے، پونے یونیورسٹی سے ہوئی۔ انھوں نے قدیم عراقی تہذیب کے آثار قدیمہ کا مطالعہ آثار قدیمہ انسٹی ٹیوٹ، یونیورسٹی کالج لندن سے کیا۔[3]
وہ جواہر لال نہرو یونیورسٹی، دہلی کے تاریخی مطالعہ مرکز میں آثار قدیمہ اور قدیم تاریخ کی پروفیسر تھی۔ وہ 2000ء میں ریٹائر ہوئی اور وہ اس وقت ممبئی میں رہنے والی ایک آزاد محقق ہے۔ انھیں وادیٔ سندھ کی تہذیب کے خاتمے میں معاون عوامل پر تفتیش کے لیے جانا جاتا ہے۔[4]
شیریں رتناگر ماہر آثار قدیمہ ڈی منڈل نے 2003ء میں ایک مکمل دن صَرف کر کے آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا (اے ایس آئی) کی بابری مسجد کے انہدام کے مقام پر کی گئی کھدائیوں کا جائزہ لیا۔ یہ کارروائی سنی وقف بورڈ کے ایما پر کی گئی تھی۔ اس کے بعد ان دو محققین نے اے ایس آئی کی کھدائیوں پر ایک انتہائی تنقیدی مواد Ayodhya: Archaeology after Excavation کے عنوان سے لکھا۔ 2010ء میں یہ دونوں الہ آباد ہائی کورٹ کے روبہ رو سنی وقف بورڈ کے گواہ کے طور پر حاضر ہوئے۔[5]
اپنے فیصلے میں ہائی کورٹ نے کئی گواہوں کے رول کی شدید نکتہ چینی کی، جن میں رتناگر بھی شامل تھی اور جسے یہ مجبورًا حلفیہ قبول کرنا پڑا کہ اسے آثار قدیمہ کی بھارت میں کھدائیوں کا کوئی عملی تجربہ نہیں ہے۔[6] رتناگر اور ان کے حامیوں نے بعد میں اس کی پیش کردہ روداد کا دفاع کیا کیونکہ وہ بھارت کے باہر کئی آثار قدیمہ کی کھدائیوں کا حصہ رہی ہے جیساکہ تل الریمہ، عراق، 1971ء۔[7]۔ اسی طرح رتناگر ترکی اور خلیج میں بھی مشاہدہ کر چکی ہے۔[8]
اس سے قبل اس مقدمے میں شیریں رتناگر کو توہین عدالت کی نوٹس جاری ہوئی تھی کہ اس نے ایک عدالتی حکم کی خلاف ورزی کی ہے جس کے ذریعے زیر دوران مقدمے پر اپنے خیالات کا عوام کے روبرو اظہار پر روک لگی تھی۔[9]