صبر

صبر کے معنی ہیں کسی خوشی، مُصیبت، غم اور پریشانی وغیرہ کے وقت میں خود کو قابو میں رکھنا اور خلاف شریعت کاموں سے بچنا۔

صبر کی تعریف

[ترمیم]

صبر کا لغوی معنی

[ترمیم]

کسی خوشی، مُصیبت، غم اور پریشانی وغیرہ کے وقت میں خود کو قابو میں رکھنا

صبر کا شرعی مفہوم

[ترمیم]

کسی خوشی، مُصیبت، غم اور پریشانی وغیرہ کے وقت میں خود کو قابو میں رکھتے ہوئے اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی مقرر کردہ حدود میں رہنا صص

صبر کی فضیلت

[ترمیم]

صبر ایک ایسا عظیم اور اعلیٰ فضیلت والا عمل ہے جس کو اللہ تعالٰیٰ نے اپنے نبیوں اور رسولوں علیہم الصلاۃ و السلام کی صفات میں تعریف کرتے ہوئے بیان فرمایا

وَإِسمَاعِیلَ وَإِدرِیسَ وَذَا الکِفلِ کُلٌّ مِّنَ الصَّابِرِینَ [1]

اور اِسماعیل اور اِدریس اور ذاالکِفل سبھی صبر کرنے والوں میں سے تھے۔

اور اس صبرکو ایک نیک عمل قرار فرماتے ہوئے اُس کا پھل یہ بتایا

وَ أَدخَلنَاہُم فِی رَحمَتِنَا إِنَّہُم مِّنَ الصَّالِحِینَ [2]

اور ہم نے (اُن کے صبر کرنے کیے نتیجے میں ) اُن سب کو اپنی رحمت میں داخل فرما لیا کہ وہ (یہ)نیک عمل کرنے والے تھے۔

اور اللہ تبارک و تعالٰیٰ نے اپنے آخری رسول مُحمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو یہ بتایا کہ یہ عظیم کام بہت بُلند حوصلہ رسولوں کی صفات میں رہا ہے اور اپنے رسول محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو اُس کام کا حکم فرمایا:

فَاصبِر کَمَا صَبَرَ أُولُوا العَزمِ مِنَ الرُّسُلِ [3]

اور (اے مُحمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم) آپ بھی اُسی طرح صبر فرمایے جس طرح (آپ سے پہلے )حوصلہ مند رسولوں نے فرمایا۔

حقیقی صبر

[ترمیم]

حقیقی صبر وہ ہے جو کسی صدمے کی ابتدا میں ہی اختیار کیا جائے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اُن پر میرا سب کچھ قُربان ہو، ہمیں یہ عظیم حقیقت بھی بتائی کہ

إِنَّمَا الصَّبر عِندَ الصّدمۃ الأولیٰ [4]

بے شک صبر (تو وہ ہے جو) کسی صدمے کی ابتدا میں کیا جائے۔

صبر کی اہمیت اور عظمت

[ترمیم]

صبر کی أہمیت، عظمت اور دُنیا اور آخرت کے فوائد کا اندازہ اس بات سے خوب اچھی طرح ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالٰی قُرآن کریم میں ہمیں بہت دفعہ اور ہماری زندگیوں کے مختلف حالات میں صبر اختیار کرنے کا حُکم فرمایا ہے

صبر کا عموم حکم

[ترمیم]
وَاصبِر وَمَا صَبرُکَ إِلاَّ بِاللّہِ وَلاَ تَحزَن عَلَیہِم وَلاَ تَکُ فِی ضَیقٍ مِّمَّا یَمکُرُونَ [5]

اور (اے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ) آپ صبر کیجیے اور آپ کا صبر سوائے اللہ کی (دی ہوئی )توفیق کے ہو نہیں سکتا اور آپ ان لوگوں (کے کفر و عناد کی وجہ سے ان )کے لیے غمزدہ مت ہوں اور نہ ان لوگوں کی مکاریوں کی وجہ سے تنگی میں ہوں۔

شدید سختی والے کام کرتے رہنے میں صبر کیے رکھنے کا حُکم

[ترمیم]

اللہ تبارک و تعالٰیٰ نے اپنے شرعی اور قَدری احکام اور فیصلوں کی مثال دے کر اس بات کو واضح کرتے ہوئے فرمایا:

فَاصبِر لِحُکمِ رَبِّکَ وَلَا تُطِع مِنہُم آثِماً أَو کَفُوراً سورۃ دہر (سورۃ الانسان)

اور (اے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ) آپ رب کے حُکم پر صبر کیجیے اور اُن (کفار و مشرکین) میں سے کسی بھی گناہ گار یانا شکرے کی اطاعت مت کیجیے گا۔

کفار و مشرکین کے ظلم پر صبر کا حکم

[ترمیم]
لَتُبلَوُنَّ فِی أَموَالِکُم وَأَنفُسِکُم وَلَتَسمَعُنَّ مِنَ الَّذِینَ أُوتُوا الکِتَابَ مِن قَبلِکُم وَمِنَ الَّذِینَ أَشرَکُوا أَذًی کَثِیراً وَإِن تَصبِرُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ ذَلِکَ مِن عَزمِ الأُمُور [6]

تُم لوگ ضرور تُمہاری جانوں اور مال میں آزمائے جاؤ گے اور ضرور جنہیں تُم سے پہلے کتاب دی گئی اُن سے اور شرک کرنے والوں سے بہت زیادہ تکلیف دہ باتیں سنو گے اور اگر تُم لوگ صبر کرو گے اور اللہ سے بچو گے تو بے شک ایسا کرنا بہت بڑی ہمت والا کام ہے۔

یہاں یہ بات خوب یاد رکھنے کی ہے کافروں، مُشرکوں وغیرہ کی طرف سے پہنچنے والی تکلیفوں اور پریشانیوں پر صبر سے مُراد یہ نہیں کہ ان کے ظُلم ، کفر ، شرک اور عناد کو ہمیشہ اور ہر طرح برداشت ہی کیا جاتا رہے گا، نہیں، بلکہ ان کواِسلام کی دعوت دینے، حق اُن پر واضح کرنے اور نہ ماننے کی صورت میں یا، اُن کی طرف سے اللہ کی شان میں گستاخی یا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی شان میں گستاخی، اللہ کے دِین کے خلاف کام کرنے، مُسلمانوں کی جان مال عزت پر حملہ آور ہونے یا کسی بھی صورت میں اسے نُقصان پہنچانے کی صورت میں اُن کو ہر ممکنہ طور پر نہ صرف روکنے بلکہ ان کے خلاف باقاعدہ جہاد کرے کا حُکم ہے، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر، یعنی نیکوں کا حکم کرنے اور برائیوں سے روکنے میں جو کوئی مُصیبت اور مشقت پیش آئے اس پر صبر کیے رکھنے کا حُکم اپنے ایک نیک بندے کے پیغام کے طور پر فرمایا:

یَا بُنَیَّ أَقِمِ الصَّلَاۃَ وَأمُر بِالمَعرُوفِ وَانہَ عَنِ المُنکَرِ وَاصبِر عَلَی مَا أَصَابَکَ إِنَّ ذَلِکَ مِن عَزمِ الأُمُورِ [7]

اے میرے بیٹے نماز قائم کر اورنیکی کا حُکم کر اور برائی سے روک اور جو کوئی مُصیبت تمھیں پیش آئے اس پر صبر کر بے شک یہ بڑی ہمت والا کام ہے۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے ہمیشہ صبر کرنے، کا حُکم دیتے ہوئے اور ساتھ ہی ساتھ اس عظیم خیر و خوبی والی صفت کو حاصل کرنے کا طریقہ تعلیم فرماتے ہوئے انصار رضی اللہ عنہم اجمعین کو ارشاد فرمایا:

مَا یَکُون عِندِی مِن خَیرٍ لَا أَدَّخِرہُ عَنکُم وَإِنَّہُ مَن یَستَعِفَّ یُعِفَّہُ اللَّہ وَمَن یَتَصَبَّر یُصَبِّرہُ اللَّہ ُ وَمَن یَستَغنِ یُغنِہِ اللَّہ وَلَن تُعطَوا عَطَاء ً خَیرًا وَأَوسَعَ مِن الصَّبرِ [8]

میرے پاس خیر میں سے جو کچھ ہوتا ہے وہ تُم لوگوں سے بچا کر نہیں رکھتا اور بے شک جو عفت طلب کرتا ہے اللہ اسے عفت عطا فرماتا ہے اور جو صبر کرتا ہے اللہ اسے صبر دیتا ہے اور جو غِنا طلب کرتا ہے اللہ اسے غنی کر دیتا ہے اور تُم لوگوں کو صبر سے بڑھ کر خیر اور وسعت والی کوئی اور چیز ہر گز عطاء نہیں کی گئی۔

اور صبر کو اللہ تعالٰیٰ نے، اس کی مدد کے حصول کا ذریعہ قرار دیتے ہوئے فرمایا:

وَاستَعِینُوا بِالصَّبرِ وَالصَّلاَۃِ وَإِنَّہَا لَکَبِیرَۃٌ إِلاَّ عَلَی الخَاشِعِینَ [9]

(اے ایمان والو ) صبر اور نماز کے ذریعہ (اللٌٰہ سے) مدد طلب کرو اور بے شک(اللٌٰہ سے ) ڈرنے والوں کے علاوہ دوسروں کے لیے ایسا کرنا بہت بڑی مشکل (والا کام)ہے۔

صبر کاپھل

[ترمیم]
وَأَطِیعُوا اللّہَ وَرَسُولَہُ وَلاَ تَنَازَعُوا فَتَفشَلُوا وَتَذہَبَ رِیحُکُم وَاصبِرُوا إِنَّ اللّہَ مَعَ الصَّابِرِینَ [10]

اور اللہ کی اور اُس کے رسول (صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ) کی تابع فرمانی کرو اور آپس میں تنازع مت کرو (ایسا کرو گے ) تو تمھاری ہوا جاتی رہے گی اور صبر کرو بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔

وَاللَّہُ یُحِبُّ الصِّابِرِین [11]
اور اللہ صبر کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
وَبَشِّرِ المُخبِتِینَ [12]

اور ( اے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اِیمان پر) اطمینان رکھنے والوں کو خوشخبری سنا دیجیے ۔

الَّذِینَ إِذَا ذُکِرَ اللَّہُ وَجِلَت قُلُوبُہُم وَالصَّابِرِینَ عَلَی مَا أَصَابَہُم وَالمُقِیمِی الصَّلَاۃِ وَمِمَّا رَزَقنَاہُم یُنفِقُونَ [12]

یہ وہ ہیں کہ جب اللہ کا ذِکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل خوف زدہ ہوجاتے ہیں اور جو کچھ (مُصیبت پریشانی وغیرہ) انھیں آن پڑتی ہے اس پر صبر کرتے ہیں،

  • ابو موسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا:
الطُّہُورُ شَطرُ الإِیمَانِ وَالحَمدُ لِلَّہِ تَملَأُ المِیزَانَ وَسُبحَانَ اللَّہِ وَالحَمدُ لِلَّہِ تَملَآَنِ أو تَملَأُ ما بَین السَّمَاوَاتِ وَالأَرضِ وَ الصَّلَاۃُ نُورٌ وَالصَّدَقَۃُ بُرہَانٌ وَ الصَّبرُ ضِیَاء ٌ وَالقُرآنُ حُجَّۃٌ لک أو عَلَیکَ کُلُّ النَّاس یَغدُو فَبَایِعٌ نَفسَہُ فَمُعتِقُہَا أو مُوبِقُہَا [13]

طہارت ایمان کا حصہ ہے اور الحمد للہ (کہنا) میزان(ترازو) کو بھر دیتا ہے اور سُبحان اللہ اور الحمد للہ (کہنا) آسمانوں اور زمین کے درمیان کو بھر دیتا ہے اور نماز روشنی ہے اور صدقہ واضح دلیل ہے اور صبر چمک ہے اور قُرآن حجت ہے( یا خود ) تمھارے لیے (یاخود) تمھارے خِلاف ہر انسان نے کل کو جانا ہے اور اپنی جان کو بیچنا ہے تو کوئی تو اپنی جان کو چُھڑانے والا ہے اور کوئی اس کو ہلاک کرنے والا۔

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. سورۃ الانبیاء، آیت نمبر 85
  2. سورۃ الانبیاء، آیت نمبر 86
  3. سورۃ الاحقاف / آیت 35
  4. متفق علیہ ، صحیح بخاری / کتاب الجنائز / باب 41، صحیح مسلم/حدیث 926 /کتاب الجنائز/ باب26
  5. سورۃ النحل، آیت 127
  6. سورۃ آل عمران، آیت 186
  7. سورۃ لقمان، آیت 17
  8. صحیح بخاری حدیث 6105/ کتاب الرقاق / باب 20، صحیح مسلم /حدیث1053/ کتاب الزکاۃ / باب 42
  9. سورۃ بقرہ، آیت45
  10. سورۃ انفال، آیت 46
  11. سورۃ آل عمران، آیت 146
  12. ^ ا ب سورۃ الحج، آیت 34، 35
  13. صحیح مسلم /کتاب الطہارۃ/باب اول