عمان کے ساتویں امام الصلت بن مالك | |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
امام | |||||||
امامت عمان کے ساتویں امام | |||||||
851-885 | |||||||
پیشرو | المهنا بن جيفر | ||||||
جانشین | راشد بن النظر اليحمدی | ||||||
| |||||||
خاندان | آل يحمد | ||||||
مذہب | اباضیہ |
صلت بن مالک (عربی: امام الصلت بن مالك الخروصي اليحمدی الازدی) عمان کے ساتویں امام تھے۔ ان کا دورِ حکومت 881ء سے 885ء میں اپنی معزولی تک رہا۔ وہ ایک متقی، کتاب اللہ کے عالم اور عادل تھے۔ عجز و انکسار اور حُسنِ اخلاق کی عمدہ مثال تھے۔ اِن کا عرصۂ امامت 35 سال اور 7 ماہ تک رہا۔
قبائل یمنی کے ایک قبیلہ ازد کی شاخ خروصی سے تعلق تھا۔ امامت کا عہدہ پانے سے قبل اُن کے حالات پردہِ اخفا میں ہیں۔ 851ء میں جب چھٹے امام المہنا بن جیفر کی وفات ہوئی تو اُسی روز علمائے اباضیہ نے اِنھیں اپنا نیا امام منتخب کر لیا۔ اُس روز اسلامی تاریخ 16 ربیع الثانی 231ھ تھی۔ اُن کی بیعت کرنے والوں میں محمد بن محبوب الرحيلی اور بشير بن المنذر کے نام خصوصیت سے نمایاں ہیں۔[1]
ان کے دورِ حکومت کے بارے میں بھی زیادہ معلومات عام نہیں، تاہم اتنا پتہ ملتا ہے کہ ایک معزز اور با اثر خاتون شاعرہ فاطمہ السقطريہ جو حاکمِ یمن سلطان القاسم بن محمد الجهضمی کی دُختر بھی تھی، نے جنگی مدد کی درخواست کی تھی۔ حبشیوں نے یمن پر حملہ کر کے اُس کے والد کو قتل کر ڈالا تھا اور اقتدار پر قابض ہو گئے تھے۔[2] فاطمہ نے ایک قصیدہ لکھ کر مہر بند کرایا اور پانی کی لہروں کے سپرد کر دیا، جب یہ قصیدہ عمان کے ساحل سے جا لگا تو ایک ماہی گیر کی نظر پڑی اور وہ اسے ایک قیمتی شے خیال کر کے انعام و اکرام کے لالچ میں دربار چلا گیا۔ امام نے جب یہ قصیدہ ملاحظہ کیا تو اس میں حبشیوں کے خلاف مدد طلبی کا پیغام پایا۔ فاطمہ کی درخواست پر لبیک کہتے ہوئے امام صلت نے سو جہازوں پر مشتمل ایک بحری بیڑہ سقطری روانہ کیا۔ اس بیڑے کی قیادت جس بحری جہاز پر سوار تھی، اُس کا نام البوصی بیان کیا جاتا ہے۔[3]
اس قصیدہ کے ابتدائی چند اشعار یہ تھے:
قصیدہ کے اشعار
قل للإمام الذي ترجى فضائلُـــه | ابن الكرام وابن السَّادة النجــــبِ | |
وابن الجحاجحة الشمِّ الذين هــمُ | كانوا سناها وكانوا سادة العـــربِ | |
أمست (سقطرى) من الإسلام مقفــرةً | بعد الشرائع والفرقان والكتـبِ | |
واستبدلت بالهدى كفرًا ومعصيتاً | وبالأذان نواقيسًا من الخشـبِ |
امام صلت کے دورِ حکومت کا یہ نہایت قابلِ قدر کارنامہ ہے کہ اُنھوں نے عیسائیوں کے قبضے سے ایک مسلم حکومت کو بازیاب کرایا اور سقطری کو دوبارہ آزادی و خود مختاری دلائی۔ عمانی فوج کے ضابطہ میں امام صلت نے اباضیہ فقہ کے مطابق قوانین شامل کیے اور اس میں مسلمانوں اور غیر مسلموں سے فوج کے سلوک کی تفصیل بھی بیان کی۔[4] قلعة نزوى کے مقام پر ایک قلعہ کی تعمیر بھی امام صلت کے دور کا کارنامہ ہے۔[5]
بعض تاریخی دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ امام صلت کے عہدِ حکومت میں ایک بار شدید بارش ہوئی۔ سال ہجری 251ھ بیان کیا جاتا ہے جب کہ عیسوی سال 865-66ء تھا۔ یہ طوفانی بارش عمان کے دو مقامات الباطنة اور الداخلية میں نہایت شدت سے برسی تھی۔ اس کے نیتجے میں وادیوں میں سیلاب آ گیا، درخت جڑوں سے اُکھڑ گئے اور شہری تعمیرات کو تباہی کا سامنا کرنا پڑا۔ جانی و مالی نقصان بھی بہت ہوا، لوگوں کی کثیر تعداد سیلاب اور طوفانی بارش میں ماری گئی اور جو بچ گئے وہ ہجرت پر مجبور ہو گئے۔
پاکستان کا موجودہ صوبہ سندھ اور پنجاب کے جنوبی علاقہ جات پر تب عربوں کی حکومت قائم تھی۔ محمد بن قاسم کی آمد کے بعد یہاں مسلمان حکومت قائم چلی آ رہی تھی اور بنو اُمیہ کے خاتمے کے بعد بنو عباس کی سلطنت قائم ہوئی تو یہ ہندوستانی علاقے خلافت عباسیہ کے ماتحت آ کر اُس کا ایک صوبہ ہو گئے۔ انتظامی طور پر یہ صوبہ ولایت السند کہلاتا تھا۔ بنو عباس کی حکومت کے زمانہ میں ہی اس صوبہ نے نیم خود مختاری حاصل کر لی اور یہاں هباری خاندان نے اپنی سلطنت قائم کر لی۔ یہ سلطنت تاریخ میں امارتِ ہباریہ کہلائی۔
امام صلت کے زمانہ میں سندھ پر اس امارت کا بانی عمر بن عبد العزیز الہباری حاکم تھا۔ اسے 10 ویں عباسی خلیفہ المتوکل علیٰ اللہ نے 854ء میں سندھ کا گورنر تعینات کیا تھا مگر سات سال بعد 861ء میں یہ خود مختار ہو گیا مگر عباسیوں کی برائے نام بالادستی کو قائم رکھا۔ سندھ پر وقتاً فوقتاً بحری قزاقوں کی یورشیں ہوتی رہتی تھیں۔ یہ قزاق بندرگاہوں پر آ کر لوٹ مار کرتے تھے اور کبھی کبھی کافی اندر تک گھس آتے تھے اور مال و دولت لُوٹ کر اور شہریوں کو لونڈیاں غلام بنا کر جہازوں پر چلے جاتے تھے۔ سندھ کے امراء اس آفت سے پریشان رہتے تھے۔ امیر عمر تک جب یہ خبرپہنچی کہ امام صلت نے سقطری کو عیسائی حبشیوں کے قبضے سے بازیاب کرایا ہے تو اُس کی فوجی طاقت کے پیش نظر امیر نے اس معاملے میں امام صلت سے مدد طلب کرنے کا فیصلہ کیا۔
امام صلت تک جب امیر سندھ کی جانب سے امدادی پیغام پہنچا تو اُنھوں نے اُس کی بھی فوجی مدد کی اور بحری قزاقوں کے خلاف کارروائی کر کے اُن کا منہ پھیر دیا۔[3] اس کے صلہ میں امیر نے ایک سندھی تلوار امام کی نذر کی، یہ تلوار آج بھی عمان کی ملکیت ہے۔ عمان کے ہر دلعزیز سلطان قابوس بن سعید سرکاری تقریبات میں سندھی تلوار پہن کر آتے تھے۔ اس تلوار کا تذکرہ مقبول کالم نگار جاوید چودھری نے عمان میں گزرے اپنے ایام کے تذکرے میں بھی کیا ہے، وہ اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں:
سلطان قابوس سرکاری تقریبات میں سندھی تلوار پہن کر آتے ہیں۔ یہ تلوار سندھ کے مسلمان حکمران نے عمان کو تحفے میں دی تھی۔ سندھ کے مسلمان فرماں روا نے عمانی سلطان امام صلت بن مالک کو خط لکھا اور بحری قزاقوں کے خلاف مدد طلب کی۔ امام صلت نے پانچ سو فوجی بھجوا دیے۔ ان فوجیوں نے سندھی فوج کو ٹریننگ دی اور بحری قزاقوں کو مار بھگایا، سندھی حکمران نے سلطان کے لیے خوب صورت تلوار بھجوائی۔ یہ تلوار مختلف حکمرانوں سے ہوتی ہوئی سلطان قابوس تک پہنچی، سلطان ہر سرکاری تقریب میں یہ تلوار پہن کر جاتے ہیں اور یہ ہمارے لیے کسی اعزاز سے کم نہیں۔[6]
امام صلت کے دورِ حکومت کے اوخر سالوں میں قبائلی سردار اُن کے طرزِ سیاست کی بنا پر اُن سے ناراض ہو گئے کیوں کہ وہ اپنے پیش روؤں کے مقابل قبائلی سرداروں پر توجہ نہ دیتے تھے۔ آخر اُن کے سیاسی مخالفین بالخصوص موسیٰ بن موسیٰ نے اپنے حامیوں کے ساتھ نزویٰ کی طرف پیش قدمی شروع کی تا کہ الصلت بن مالک کے فوجی ہیڈ کوارٹر پہنچ کر اپنے مطالبات پیش کر سکیں، اور اگر ضرورت پڑے تو اُنھیں زبردستی اقتدار سے ہٹا کر نئے اِمام کا تقرر کریں۔ امام صلت نے اُن کے مقابلے میں جب مزاحمت کی قوت نہ پائی تو وہ اقتدار سے بے دخلی پر رضا مند ہو کر 3 ذی الحجہ 271ھ (22 اپریل 885ء) کو قصرِ اقتدار سے اپنے بیٹے کے مکان پر چلے آئے اور موسیٰ بن موسیٰ نے راشد بن النظر اليحمدی کو نئے امام کے طور پر منتخب کر لیا۔[2] معزولی کے بعد امام صلت تبلیغِ دین اور خدمتِ وطن کی سرگرمیوں میں مشغول ہو گئے اور سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔ معزولی کے تین سال بعد 275ھ میں وفات پائی۔[1]
الصلت بن مالک کی معزولی نے عمان کے قحطانی اور عدنانی قبائل کے درمیان تنازعہ کو جنم دیا جس کا اختتام خانہ جنگی پر ہوا، اس خانہ جنگی سے فائدہ اُٹھا کر عباسیوں نے عمان کو اپنی ماتحتی میں لانے کے لے محمد بن نور کی قیادت میں لشکر روانہ کر دیا۔ محمد بن نور نے خانہ جنگی کے شکار قبائل پر حملہ کر دیا، منقسم قبائل اس حملے کا مقابلہ نہ کر پائے اور محمد بن نور علاقے پر عباسی حکومت کو دوبارہ قائم کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ اس طرح فرقہ اباضیہ کی پہلی امامت کا خاتمہ ہوا۔[2]
اباضی علماء الصلت بن مالک کی معزولی کے معاملے میں آپسی اختلاف کا شکار ہو گئے۔ نزویٰ مکتب نے اُن کی معزولی کا فیصلہ معطل کر دیا جب کہ رُستاق مکتب نے امام صلت کو مرتد قرار دیا اور اُن کی معزولی کے فیصلہ پر متفق رہے۔ رُستاق مکتبہ کے اسی فکری اختلاف کے سبب آگے چل کر اباضیہ میں نئے فرقہ کا اضافہ ہوا۔ 1052ء میں رُستاق مکتبہ کے لیے (عمان کے 22 ویں امام) راشد بن سعید کی حمایت نے حضرموت کے اباضیوں کو ابو اسحاق ابراہیم بن قیس الحضرمی کی قیادت میں ایک الگ امامت بنانے پر آمادہ کیا جس کے نتیجے میں اباضیہ میں ذیلی فرقہ وجود میں آ گیا۔[7]