صیہونیت کی تاریخ (انگریزی: History of Zionism) ایک قومی تحریک ہے جو 19ویں صدی کے آخر میں ابھری، جس کا مقصد فلسطین میں ایک یہودی وطن قائم کرنا تھا۔ یہاں اس کی تاریخ کا ایک مختصر جائزہ پیش کیا جا رہا ہے:
پہلی عالمی جنگ کے دوران برطانوی حکومت نے بالفور اعلامیہ جاری کیا جس میں "یہودیوں کے لیے ایک قومی گھر" کے قیام کی حمایت کا اظہار کیا گیا۔ یہ صیہونی تحریک کے لیے ایک اہم سیاسی کامیابی سمجھا گیا۔
پہلی عالمی جنگ کے بعد برطانیہ کو فلسطین پر تسلط حاصل ہوا۔ یہودی ہجرت میں اضافہ ہوا، جس کی وجہ سے یہودی اور عرب آبادیوں کے درمیان تناؤ بڑھا۔
1920 کی دہائی اور 1930 کی دہائی میں یہودی بستیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا، لیکن اس کے ساتھ ساتھ تشدد کے واقعات بھی پیش آئے، جیسے 1929ء کا ہیبرون کا قتل عام اور 1936ء-1939ء کی عرب بغاوت۔
مرگ انبوہ میں چھ ملین یہودیوں کا قتل عام ہوا، جس نے یہودی وطن کی تشکیل کی ضرورت کو بڑھا دیا۔ بہت سے زندہ بچ جانے والوں نے فلسطین میں پناہ لینے کی کوشش کی، جس کی وجہ سے عرب مقامی آبادی کے ساتھ تعلقات کو مزید پیچیدہ کر دیا۔
1947 میں، اقوام متحدہ نے ایک تقسیم کا منصوبہ پیش کیا جس میں یہودی اور عرب ریاستوں کے لیے الگ الگ ریاستوں کا قیام تجویز کیا۔ یہ منصوبہ یہودی رہنماوں نے قبول کیا، لیکن عربوں نے اسے مسترد کر دیا۔
14 مئی 1948ء کو ڈیوڈ بین گوریون نے اسرائیل کے قیام کا اعلان کیا۔ اس کے نتیجے میں پہلی عرب-اسرائیلی جنگ چھڑی، جس میں سینکڑوں ہزاروں فلسطینی بے گھر ہوئے، جسے نکبت یا نکبۃ کہا جاتا ہے۔
آج، صیہونیت میں مختلف نظریات شامل ہیں، جن میں سیکولر ازم سے لے کر مذہبنی مذہبی سوچ شامل ہے۔ یہ علاقائی اور عالمی حالات کے جواب میں ترقی پذیر ہے۔ یہ بین الاقوامی سیاست میں ایک اہم اور اکثر متنازعہ موضوع ہے۔