ذاتی معلومات | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|
پیدائش | لاہور، پنجاب، پاکستان | 6 جون 1959|||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
بلے بازی | دائیں ہاتھ کا بلے باز | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
گیند بازی | دائیں ہاتھ کا فاسٹ میڈیم گیند باز | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
بین الاقوامی کرکٹ | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
قومی ٹیم | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
پہلا ٹیسٹ (کیپ 92) | 05 مارچ 1982 بمقابلہ سری لنکا | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
آخری ٹیسٹ | 09 فروری 1985 بمقابلہ نیوزی لینڈ | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
پہلا ایک روزہ (کیپ 36) | 19 دسمبر 1980 بمقابلہ ویسٹ انڈیز | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
آخری ایک روزہ | 03 نومبر 1985 بمقابلہ سری لنکا | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
کیریئر اعداد و شمار | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
| ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
ماخذ: [1]، 4 فروری 2006 |
طاہر نقاش (پیدائش: 6 جون 1959ء لاہور، پنجاب) پاکستانی سابق کرکٹ کھلاڑی تھے جنھوں نے 1980ء سے 1985ء تک 15 ٹیسٹ اور 40 ایک روزہ بین الاقوامی میچز کھیلے[1] ۔ طاہر نقاش سیدھے ہاتھ کے ایک اعلیٰ بلے باز اور دائیں ہاتھ کے میڈیم فاسٹ گیند باز تھے۔ انھوں نے پاکستان کے علاوہ لاہور، مسلم کمرشل بینک، پنجاب اور سروسز انڈسٹریز کی طرف سے کرکٹ مقابلوں میں حصہ لیا۔
طاہر نقاش کو 1982ء میں سری لنکا کے خلاف کراچی ٹیسٹ میں پہلی بار ٹیسٹ ٹیم کا حصہ بنایا گیا۔انھوں نے اس پہلے ٹیسٹ کو اپنے لیے یادگار بنا لیا۔ پاکستان کی 204 رنز سے فتح پر ختم ہونے والے اس ٹیسٹ میں طاہر نقاش نے 57 رنز صرف 65 گیندوں پر 9 چوکوں کی مدد سے بنا کر سب کو حیران کر دیا۔ جبکہ بولنگ کے شعبے میں انھوں نے 32 اوورز میں سے 11 میڈن کرکے 83 رنز کے عوض 3 کھلاڑیوں کو آئوٹ کیا۔ سری لنکن اوپنر بندولا ورناپورے صرف 13 رنز پر طاہر نقاش کے ہاتھوں ایل بی ڈبلیو ہوکر ان کی پہلی ٹیسٹ وکٹ بنے۔ طاہر نقاش نے دلیپ مینڈس اور مہیس گوناتلکے کو بھی اس اننگ میں اپنا شکار بنایا۔ مجموعی طور پر طاہر نقاش نے دوسری اننگ میں مزید 2 وکٹیں حاصل کرکے پہلے ہی میچ میں نصف سنچری اور 5 وکٹوں کا کارنامہ انجام دیا[2]۔ فیصل آباد کے دوسرے ٹیسٹ میں وہ خاصے مہنگے ثابت ہوئے جب 2 وکٹوں کے حصول کے لیے ان کو 161 کا چارہ ڈالنا پڑا۔[3] لاہور کے تیسرے ٹیسٹ میں انھیں 76 رنز کے عوض کوئی وکٹ نہ مل سکی۔[4] 1982ء میں انگلستان کا دورہ کرنے والے پاکستان کی کرکٹ ٹیم میں طاہر نقاش بھی شامل تھے۔ برمنگھم کے پہلے ٹیسٹ میں انھوں نے 12 اور 39 کی اننگز کھیلنے کے ساتھ ساتھ جب بولنگ کا شعبہ سنبھالا تو ایک لمحے پر وہ انگلش بیٹسمینوں کے لیے مشکلات پیدا کرنے میں کامیاب رہے اگرچہ انگلستان کی فتح پر ختم ہونے والے اس ٹیسٹ میں عمران خان کی بولنگ اپنے عروج پر تھی مگر نووارد طاہر نقاش پہلی اننگ میں 1/46 اور دوسری باری میں 40/5 کی شکل میں اہم بولر ثابت ہوئے۔ ڈیرک رینڈل 105 کے ساتھ اگر انگلستان کی مدد کو نہ آتے تو طاہر نقاش کی یہ کارکردگی پاکستان کے جیتنے کا سبب بن سکتی تھی۔ لارڈز کے دوسرے ٹیسٹ میں 31/1 کے ساتھ اس نے اس سیریز میں 7 وکٹوں کے ساتھ وطن واپسی کا رخ کیا جہاں آسٹریلیا کی کرکٹ ٹیم سیریز کھیلنے کے لیے پہنچ گئی تھی۔ کراچی کے پہلے ٹیسٹ میں 15 رنز بنانے کے علاوہ اس نے 78 رنز کے عوض 4 کھلاڑیوں کو آئوٹ کیا۔ فیصل آباد کے ٹیسٹ میں 15 ناقابل شکست رنز تو بنائے مگر 46 رنز کے عوض وہ کوئی وکٹ حاصل نہ کرسکے جس کی کسر اس نے لاہور کے آخری ٹیسٹ میں نکالی جہاں وہ 104 رنز دے کر 3 آسٹریلوی کھلاڑیوں کی وکٹیں لے اڑا۔ اسی سیزن میں بھارت کی کرکٹ ٹیم نے پاکستان کا دورہ کیا۔ سیریز کے 2 ٹیسٹ میچوں میں اس نے کراچی کے ٹیسٹ میچ میں ہی 97/2 کی کارکردگی دکھائی لیکن جب پاکستان نے 1983ء میں بھارت کا دورہ کیا تو طاہر نقاش نے بنگلور کے ٹیسٹ میں 5 بھارتی کھلاڑیوں کو ٹھکانے لگایا۔ یہ ٹیسٹ ڈرا ہو گیا تھا جہاں بھارت نے پہلے کھیلتے ہوئے 275 رنز سکور کیے تھے جس میں راجر بنی 83 ناقابل شکست رنزوں کے ساتھ نمایاں بیٹسمین رہے۔ طاہر نقاش نے 34.5 اوورز میں سے 11 میڈن کرکے 76 رنز کے عوض 5 کھلاڑیوں سنیل گواسکر 42، سندیپ پاٹیل 6، سید کرمانی 14، سری وینکٹا راگھون 5 اور دلیپ دوشی 0 کو پویلین کا راستہ دکھایا۔ جالندھر کے ٹیسٹ میں انھوں نے 37 رنز بنانے کے علاوہ 74 رنز کے عوض 2 وکٹیں حاصل کیں جبکہ ناگپور میں ایک وکٹ کے لیے انھیں 127 رنز وارنے پڑے۔ 1983ء میں آسٹریلیا کے خلاف پرتھ ٹیسٹ میں اس نے 29 ناقابل شکست اور 26 رنز سکور کیے تھے تاہم 76 رنز کے عوض وہ کسی وکٹ سے محروم رہے۔ اسی طرح 2 سال کے عرصے کے بعد جب انھیں نیوزی لینڈ کی سیریز کے لیے طلب کیا گیا تو انھیں ڈونیڈن کا واحد اور اپنے ٹیسٹ کیریئر کا آخری ٹیسٹ کھیلنے کو ملا جہاں انھوں نے 81 رنز دے کر 3 کھلاڑیوں کو اپنے چنگل میں پھنسایا۔ نیوزی لینڈ کی فتح پر ختم ہونے والے اس ٹیسٹ کو وسیم اکرم کی عمدہ کارکردگی کے سبب یاد رکھا جائے گا۔ طاہر نقاش پہلی اننگ میں کوئی سکور نہ بنا سکے تاہم جب نیوزی لینڈ نے اننگ شروع کی تو طاہر نقاش آئن سمتھ، برینڈن بریسویل کی وکٹیں لے اڑے۔ دوسری اننگ میں انھوں نے 58 رنز کے عوض مارٹن کرو کی وکٹ حاصل کی۔ یوں کسی لحاظ سے اس نے اپنے آخری ٹیسٹ میچ کو یادگار بنا ہی لیا۔
طاہر نقاش کو 1980ء میں ویسٹ انڈیز کی مہمان ٹیم کے خلاف لاہور میں پہلا ون ڈے میچ کھیلنے کے لیے طلب کیا گیا۔انھوں نے اس میچ میں کوئی بھی رن نہیں بنایا۔ انھوں نے 1981ء میں آسٹریلیا کے خلاف ایڈیلیڈ میں 21 ناٹ آئوٹ اور ویسٹ انڈیز کے خلاف سڈنی میں 23 ناٹ آئوٹ بھی بنائے۔ 1981ء میں ایڈیلیڈ میں ویسٹ انڈیز کے خلاف انھوں نے ڈیسمنڈ ہینز کو 7 رنز پر وکٹوں کے پیچھے اشرف علی کے ہاتھوں کیچ کروا کر اپنی پہلی ون ڈے وکٹ حاصل کی۔ ان کی ون ڈے میں بہترین کارکردگی آسٹریلیا کے خلاف سڈنی میں 1984ء کی سیریز میں رہی جہاں انھوں نے 56 رنز دے کر 2 کھلاڑیوں کو آئوٹ کیا۔ انھوں نے 1984ء میں ہی بھارت کے خلاف کوئٹہ کے ایک روزہ مقابلوں میں 35 رنز دے کر 2 کھلاڑیوں کو اپنا نشانہ بنایا۔ لیکن نیوزی لینڈ کے خلاف 1985ء میں کرائسٹ چرچ میں 40/3 اور انگلینڈ کے خلاف میلبورن میں 24/3 اور ویسٹ انڈیز کے خلاف میلبورن میں 23/3 ان کی اعلیٰ کارکردگی میں شمار ہوتے ہیں۔ انھوں نے 1985ء میں انگلستان کے خلاف شارجہ میں 20/2 اور پشاور میں سری لنکا کے خلاف 29/2 سے بھی ٹیم کی مدد کی۔ سری لنکا کے خلاف لاہور کے مقام پر 59/3 بھی ان کی اعلیٰ کارکردگی میں شمار کی جاتی ہے تاہم سری لنکا کے خلاف بھی اپنے آخری ایک روزہ میچ میں حیدرآباد کے مقام پر انھوں نے 7 ناقابل شکست رنز بنائے اور 2 کھلاڑیوں کو کیچز کی صورت میں تھاما مگر 12 رنز دے کر انھیں کوئی وکٹ نہ مل سکی۔
طاہر نقاش نے 15 ٹیسٹ میچوں کی 19 اننگز میں 5 مرتبہ ناٹ آئوٹ رہ کر 300 رنز بنائے۔ 21.42 کی اوسط سے ترتیب پا جانے والے اس مجموعے میں 57 رنز کی بہترین انفرادی اننگز بھی شامل تھی جو طاہر نقاش کی طرف سے سکور ہونے والی واحد نصف سنچری ہے۔ انھوں نے 40 ایک روزہ بین الاقوامی میچوں کی 23 اننگز میں 9 مرتبہ بغیر آئوٹ ہوئے 210 رنز بنائے جن میں انھیں 15.00 کی اوسط حاصل ہوئی۔ 61 ان کا بہترین انفرادی سکور اور ون ڈے میچوں میں سکور کی جانے والی اکلوتی نصف سنچری تھی۔ طاہر نقاش نے 68 فرسٹ کلاس میچوں کی 84 اننگز میں 11 مرتبہ ناٹ آئوٹ رہ کر 1346 رنز بنائے۔ 18.43 کی اوسط سے بننے والے اس مجموعے میں 60 ان کا زیادہ سے زیادہ انفرادی سکور تھا۔ انھوں نے ٹیسٹ میچوں میں 3، ون ڈے میچوں میں 11 اور فرسٹ کلاس میچوں میں 37 کیچز بھی کرکے کھلاڑیوں کو پویلین کا راستہ دکھایا۔ طاہر نقاش نے 15 ٹیسٹوں میں 1398 رنز دے کر 34 وکٹس اپنے نام کیے۔ 5/40 ان کی کسی ایک اننگ کی بہترین کارکردگی تھی بلکہ 6/86 ان کی ایک میچ میں بہترین کارکردگی قرار پائی جس کے لیے انھیں 41.11 کی اوسط مدد حاصل ہوئی۔ ایک روزہ مقابلوں میں 1240 رنز دے کر انھوں نے 34 وکٹیں حاصل کیں۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ ان کے ٹیسٹ اور ون ڈے وکٹوں کی تعداد یکساں ہے۔ ون ڈے میں 3/23 ان کی کسی ایک اننگ کی بہترین بولنگ پرفارمنس ہے جس کی اوسط 36.47 تھی۔ فرسٹ کلاس میچوں میں طاہر نقاش کی وکٹوں کی تعداد 163 ہے جس کے لیے انھوں نے 5285 رنز دیے۔ 9/45 ان کی فرسٹ کلاس کی ایک اننگ کی بہترین کارکردگی قرار پائی۔ طاہر نقاش کا شمار بھی انہی کھلاڑیوں میں ہوتا ہے جنھوں نے ایک میچ میں بولنگ اور بیٹنگ دونوں میں اننگز کا آغاز کیا۔ انھوں نے یہ اعزاز 1983ء میں بھارت کے خلاف ناگپور ٹیسٹ میں حاصل کیا۔ طاہر نقاش کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انھوں نے 9ویں پوزیشن پر کھیلتے ہوئے پاکستان کی طرف سے نیوزی لینڈ کے خلاف 1985ء میں آکلینڈ کے مقام پر 61 رنز بنائے تھے۔ 49 گیندوں پر 4 چوکوں اور 3 چھکوں کی مدد سے انھیں 124.48 کا سٹرائکنگ ریٹ حاصل ہوا جو آج بھی پاکستان کی طرف سے 9ویں وکٹ کے لیے ایک ریکارڈ ہے۔
پیش نظر صفحہ سوانح پاکستانی کرکٹ سے متعلق سے متعلق موضوع پر ایک نامکمل مضمون ہے۔ آپ اس میں مزید اضافہ کرکے ویکیپیڈیا کی مدد کرسکتے ہیں۔ |