عائشہ میراں کی جنسی زیادتی اور قتل کا مجرمانہ واقعہ وجے واڑا میں 2007ء میں ہوا تھا۔ اس معاملے کو خصوصیت کے ساتھ بھارت بھر کے اخبارات اور ٹیلی ویژن چینل لمبے عرصے تک عوام کے سامنے لاتے رہے اور یہ معاملہ کئی مذاکروں کا حصہ بھی بنا رہا۔[1][2][3]
عائشہ میراں نامی ایک 19 سالہ فارمیسی کی طالبہ تھی جس کو وجے واڑا میں اس کے ہاسٹل میں 22 سالہ پی۔ ستیم بابو نے بے رحمی سے آبرو ریزی کرنے کے بعد اس کا قتل کر دیتا ہے۔ چاقو سے زخمی ہونے کے بعد اس کا فوت شدہ جسم 27 دسمبر 2007ء کو باتھ روم میں پایا گیا تھا۔ لاش کے ساتھ قاتل کا نوشتہ ایک خط چھوڑا گیا تھا جس میں بتایا گیا تھا کہ چوں کہ عائشہ نے اس کے پیار کو ٹھکرا دیا تھا، اس لیے اس کی پہلے عزت لوٹی گئی اور پھر اس کا قتل کر دیا گیا۔[2][3]
پی۔ ستیم بابو کے رشتے داروں اور انسانی حقوق کے لیے فعال شخصیات کا الزام ہے کہ پولیس معاملے میں حقیقی مجرموں کو بچانے کی کوشش میں اسے پھنسانے کی کوشش کر رہی تھی۔ انھوں نے کہا کہ ستیم بابو نفسیاتی مرض سے متاثر ہے اور چل بھی نہیں سکتا۔ نظام انسٹی ٹیوٹ آف میڈکل سائنسیز کے ڈاکٹروں نے اس کے چلنے کی دقت کی تصدیق کی تھی۔ اس کے علاوہ متاثرہ لڑکی کے ماں باپ نے بھی پولیس کی اس بات کا انکار کیا کہ بابو نے عائشہ کا قتل کیا ہے اور ان لوگوں نے دعویٰ کیا کہ پولیس کچھ سیاست سے جڑے بااثر لوگوں کو بچانے کی کوشش کر رہی ہے۔[3]
پی۔ ستیم بابو پہلی بار اگست 2008ء میں گرفتار ہوا تھا۔ اس کے باوجود، پکڑے جانے کے چند ہی گھنٹوں میں وہ پولیس اہل کاروں کو اس وقت دھوکا دینے اور بھاگنے میں کامیاب ہو گیا جب پولیس کا ایک جتھا نلگونڈہ ضلع کے سوریا پیٹ میں کھانے کے لیے ایک ہوٹل گیا تھا۔ پولیس حیدرآباد کے ایک اسپتال میں علاج کے بعد ملزم کو وجے واڑا لے جا رہی تھی۔ وجے واڑا پولیس نے ملزم کے فرار ہونے کے فوری بعد 11 پولیس ملازمین کو معطل کر دیا تھا۔ بچنے کی ساری کوششوں کے باوجود ستیم بابو آندھرا پردیش کے کرشنا ضلع میں کچھ ہی گھنٹوں میں پکڑ لیا گیا تھا۔[3]
وجے واڑا میں خواتین کی ایک خصوصی عدالت نے قتل کے لیے تعزیرات ہند کی دفعہ 302 کے تحت پی۔ ستیم بابو کو 14 سال جیل کی سزا سنائی اور آبرو ریزی کے لیے تعزیرات ہند کی دفعہ 376 کے تحت 10 سال قید بامشقت کی سزا سنائی۔ عدالت نے دونوں جیل کی میعادوں کو ساتھ ساتھ پورا ہونے کا حکم دیا۔ عدالت نے ستیم بابو کو 1،000 روپے جرمانہ دینے یا چھ مہینے کی مزید سزا جیل میں گزارنے کا حکم دیا تھا۔[3]
2017ء کے ایک فیصلے میں حیدرآباد ہائی کورٹ نے ستیم بابو کو عائشہ کے قتل کے معاملے میں بری کر دیا۔ عدالت نے پولیس عہدے داروں کی سرزنش کی اور یہ ہدایت کی کہ افسروں کے خلاف کارروائی شروع کی جانی چاہیے۔ عدالت نے ستیم کے ایک لاکھ تک کے اخراجات کی پا بجائی بھی کی۔[4]