عبد الحامد بدایونی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 11 نومبر 1898ء دہلی |
وفات | 20 جولائی 1970ء (72 سال) کراچی |
شہریت | برطانوی ہند (1898–) پاکستان (1947–) |
عملی زندگی | |
پیشہ | شاعر |
درستی - ترمیم |
محمد عبد الحامد قادری بد ایونی مجاہد ملت ،مسلک اہل سنت و جماعت کے اعتبار سے بد ایوں ہندوستان میں مرکزی علما میں سے ہیں۔
سلسلہ مضامین |
بریلوی تحریک |
---|
|
ادارے بھارت
پاکستان
مملکت متحدہ |
عبد الحامد قادری بدایونی بن حکیم عبد القیوم قادری بن حکیم مرید جیلانی بن محی الدین قادری عثمانی بن شاہ فضل رسول بدایونی مصنف سیف اللہ المسلول یہ عبد الماجد بدایونی کے بھائی ہیں[1]
تحریک پاکستان کے ممتاز راہنما شاہ محمد عبد الحامد قادری بد ایونی 1318ھ/1900ءء میں دہلی میں اپنے ننھیال کے ہاں پیدا ہوئے محمد ذو الفقار حق( 1318ھ) تاریخی نام تجویز ہوا [2]ابھی آپ کی عمر بیس دن ہی کی تھی کہ والد ماجد کا انتقال ہو گیا ۔
عبد الحامد بد ایونی اور ان کے بڑے بھائی عبد الماجد بد ایونی کی تعلیم و تربیت کا تمام تر انتظام ان کی والدہ ماجد ہ ( سیدی بہاؤ الدین دہلوی کی ہمشیرہ ) نے کیا۔ ابتدا اپنے آبائی مدرسہ، مدرسہ قادریہ میں تعلیم حاصل کی، آخری دو سال الٰہیات کی تکمیل اور فن قرأ ت کی تحصیل کے لیے مدرسئہ الٰہیہ، کانپور میں رہے۔ آپ کے اساتذہ میں آپ کے مرشد بر حق مولانا شاہ عبد المقتدر بد ایونی کے علاوہ مولانا محب احمد قادری، مولانا حافظ بخش بد ایونی، مولانا قدری بخش بد ایونی مولانا مفتی محمد ابراہیم، مولانا مشتاق احمد کانپوری، مولانا واحد حسین اور مولانا عبد السلام فلسفی کے نام ملتے ہیں ۔
23مارچ 1940ء کو منٹو پارک، لاہور کے تاریخی اجلاس میں قرارداد پاکستان پیش کی گئی تو عبد الحامد بد ایونی مسلم لیگ کے ان زعماء میں شامل تھے جنھوں نے قرارداد کی تائید میں تقریر کی 30 اگست 1941 ء کو لدھیانہ میں آپ کی صدارت میں پاکستان کانفرنس منعقد ہوئی، اس کا نفرنس میں آپ نے پاکستان کے حق میں بلیغ خطبہ ارشاد فرمایا جو بعد میں نظامی پریس، بد ایوں سے چھپ کر ملک بھر میں تقسیم ہوا۔ 1945ء میں قائد اعظم اور میر عثمان علی خاں فرمانروائے دکن کے باہمی اختلافات نازک صورت اختیار کر گئے تو قائد ملت خان لیاقت علی خان نے مولاناعبدالحامد بد ایونی کو منتخب کیا تاکہ اختلافات ختم کر انے کے لیے دونوں راہنماؤں کی ملاقات کا راستہ ہموار کریں، والئی دکن، مولانا بد ایونی کی بڑی قدر د منزلت کرتے تھے اور انھیں دینی جلسوں میں تقریر کے لیے مد عو کیا کرتے تھے مولانا فرنر واء دکن سے ملاقات کی اور طویل گفتگو کے بعد انھیں قائد اعظم سے ملاقات کرنے پر آمادہ کیا قیام پاکستان کے بعد آپ آل انڈیا مسلم یگ کے اجلاس میں شرکت کے لیے کراچی آئے تو علما پاکستان کے اصرار پر مستقل طور پر یہیں قیام پزیر ہو گئے [3]
جمعیت العلماء، پاکستان کے قیام اور استحکام کے لیے ابتدا ہی سے آپ نے اپنی کوششیں وقف کر رکھی تھیں، علامہ ابو الحسنات قادری کے وصال کے بعد جمعیت کے مرکزی صدر بنے اور اپنی شبانہ روز محنت سے جمعیت کو چار چاند لگا دیے، مولانا ان علما میں شامل تھے جنھوں نے 22 نکات پر مشتمل دستوری خاکہ مرتب کیا تھا، 1953ء میں جب تحریک ختم نبوت شروع ہوئی تو اس میں آپ نے کھل کر حصہ لیا اور انتہائی علالت کے با وجود فر وری 1953ء میں اسلامی مشارقی کونسل کے رکن نامزد ہوئے، اس ضمن میں انھوں نے کونسل کو اہم سفارشات پیش کیں، 1965ء میں پاک بھارت جنگ چھڑی تو آپ نے علما اہل سنت کی ایک جماعت کے ساتھ ملک بھر کا دورہ کیا اور تین لاکھ روپے کے کپڑے اور دیگر ضروری سازد سامان مہاجرین کشمیر میں تقسیم کیا ۔
عبد الحامد بد ایونی نے قدیم اور جدیدی علوم کے ساتھ ساتھ دنیا کی اہم زبانوں کی تعلیم کے لیے کئی لاکھ روپے صرف کر کے منگھو پیر روڈ، کراچی میں جامعہ تعلیمات اسلامیہ کے نام سے عظیم درس گاہ قائم کی، آپ کی اپیل پر صدر مملکت اور اسلامی مملاک کے سر براہوں نے دل کھول کر امداد کی، یہ ادارہ آج بھی علوم دینیہ کی خدمت میں مصروف ہے۔ آپ چین، روس، مصر، ترکی، تیونس، نائجیریا، کویت، عرا، ایران اور حجاز مقدس گئے مسئلہ کشمیر کی اہمیت کو واضح کیا۔ آپ نے بائیس مرتبہ حرمین شریفین کی حاضری کی سعادت حاصل کی [4]
آپ نے قابل قدر تصانیف کا ذخیرہ یادگار چھوڑ ا، چند تصانیف کے نام یہ ہیں:۔
15 جمادی الاولیٰ، 1390ھ /20 جولائی1970ء کو شاہ محمد عبد الحامد بد ایونی قادری کا جناح ہسپتال، کراچی میں انتقال ہوا۔[6]
تحریک پاکستان کے بزرگ سیاسی رہنما آزاد بن حیدر کی کتاب انسائیکلو پیڈیا فاتح سرحد مولانا عبدالحامد بدایونی کی اشاعت 30 نومبر، 2016ء کو ہوئی،