شیخ الاسلام ،مولانا | |
---|---|
عبد الحمید اسماعیل زئی | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 1947ء (عمر 76–77 سال)[1] گلوگاہ [2][1] |
شہریت | شاہی ایرانی ریاست (1947–1979) ایران (1979–) |
نسل | بلوچ قوم [3] |
مذہب | اسلام |
فرقہ | اہل سنت |
فقہی مسلک | حنفی[4] |
رکن | عالمی اتحاد برائے علمائے اہل اسلام ، رابطہ عالم اسلامی |
عملی زندگی | |
پیشہ | فقیہ ، استاد جامعہ |
شعبۂ عمل | توحید ، حدیث |
ویب سائٹ | |
ویب سائٹ | باضابطہ ویب سائٹ |
درستی - ترمیم |
عبد الحمید اسماعیل زئی (فارسی: عبدالحمید اسماعیلزهی) ایک ایرانی سنی عالم دین ہیں جنہیں روئٹرز کے مطابق، ”ایران کی سنی آبادی کا روحانی رہنما“ قرار دیا جاتا ہے۔[5] انھیں ایران کی بلوچ قوم کی اکثریت کی تائید حاصل ہے، ان کے لیے وہ ”مولوی“ صاحب ہیں۔[4]
وہ زاہدان کی جامع مسجد مکی کے امام[6] جامعہ دار العلوم زاہدان کے مہتمم ہیں، جو شہر میں مرکزی مدرسہ ہے۔[7]
مولانا عبد الحمید سنہ 1366 ہجری میں "گلوگاہ" گاؤں میں پیدا ہوئے، جو زاہدان (ایران کا مشرقی حصہ، سیستان و بلوچستان کی سرحدی دار الحکومت) کے مضافات میں سے ہے اور زاہدان شہر سے تقریباً ستّر کلومیٹر دور ہے، وہیں ایک دیندار اور متبع شریعت گھرانہ میں پروان چڑھے۔[8]
بچپن ہی میں لکھنے پڑھنے کی طرف میلان تھا اور زاہدان میں ابتدائی تعلیم حاصل کی، ان وقت زاہدان میں کوئی دینی مدرسہ اور جامعہ نہیں تھا، چنانچہ سندھ پاکستان کے ایک مدرسہ "دار الہدیٰ" گئے، پھر "عبد اللہ درخواستی" کی خدمت میں حاضر ہوئے، وہاں سے "دار العلوم رحیم یار خان" گئے، حدیث اور تفسیر "عبد الغنی جاجروی" کے پاس پڑھا، ان سے خوب استفادہ کیا اور ان کے قریبی تلامذہ میں شامل ہو گئے، وہ اِن سے خوب محبت کرتے تھے، اعتماد اور بھروسا حاصل تھا اور بہت سے تلامذہ اور شاگردوں میں فوقیت رکھتے تھے۔
جب اسلامی علوم کی تکمیل کر لی اور شیخ سے تفسیر، حدیث اور فقہ میں اجازت حاصل کر لی تو پھر اپنے شہر زاہدان واپس ہو گئے، وہاں عبد العزیز سربازی سے مل گئے جنھوں نے بھارت میں تعلیم حاصل کی تھی، جو کفایت اللہ دہلوی، حسین احمد مدنی اور قاری محمد طیب قاسمی کے شاگرد تھے، مولانا عبد الحمید زاہدان ہی میں رہے، مولانا عبد العزیز نے دار العلوم زاہدان اور جامع مکی میں اپنا نائب منتخب کر لیا، چنانچہ ان کے معتمد خاص بن گئے۔[8]
جب مولانا عبد العزیز کا 1410ہجری انتقال ہو گیا، تو مولانا عبد الحمید دار العلوم زاہدان اور جامع مکی کے مہتمم بن گئے، چنانچہ دار العلوم زاہدان ان کی کوششوں سے ترقی کرنے لگا، طلبہ کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا، مختلف شاخیں اور شعبے قائم ہو گئے اور پورے ملک میں پھیل گئے، اسی طرح جامع مکی کی بھی توسیع ہوئی اور ایران کی سب سے بڑی مسجد بن گئی، اس کے بعد برابر جامع مکی اور دار العلوم زاہدان کی توسیع ہوتی رہتی ہے، اسی طرح نوجوان علما کی تربیت، دینی تنظیموں کا قیام اور شہروں و دیہاتوں میں اس کی شاخوں کی تاسیس ہوتی رہتی ہے۔
اسی طرح تقریباً 40 سالوں سے مولانا علوم شریعہ کا درس بخوبی دے رہے ہیں اور تقریباً 20 سالوں سے صحیح بخاری کا درس ان سے متعلق ہے، اسی طرح خصوصاً جامع مکی میں اور دیگر مساجد میں خطبے و تقاریر کا سلسلہ بھی تقریباً 30 سالوں سے جاری ہے، اس کے عصری اداروں میں پڑھنے والے طلبہ کی تربیت، انھیں ایک دینی علمی ماحول فراہم کرنا، لوگوں کے مسائل و قضایا کو حل کرنا، مسلمانوں کے آپسی و خارجی مسائل پر توجہ دینا وغیرہ بھی مولانا بخوبی انجام دیتے ہیں، بلکہ مسائل و قضایا کے حل کے سلسلے میں مولانا کا مقام کسی بڑی عدالت سے کم نہیں ہے، بلکہ بسا اوقات سرکاری عدالتیں بھی بعض مسائل و معاملات کو شریعت اسلامی کی روشنی میں حل کرنے کے لیے مولانا سے رجوع کرتی ہیں۔
ابھی ادھر اخیر چند سالوں سے اسلامی ممالک کی بعض کانفرنسوں میں شرکت کی دعوت ملی ہے، چنانچہ ان کانفرنسوں میں شرکت کے لیے ان ممالک کا سفر کیا اور ان ممالک اور کانفرنسوں کے متعلق اپنے تاثرات کا اظہار کیا، مثلاً امام ابو الحسن علی حسنی ندوی کانفرس میں شرکت کے لیے بھارت کا سفر کیا، رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ کی بعض کانفرنسوں میں شرکت کی، بین المذاہب مذاکرات کانفرنس مکہ مکرمہ میں شرکت کی، متحدہ امارات میں فقہ اکیڈمی کی کانفرنس میں شرکت،تاجکستان میں امام ابو حنیفہ کانفرنس میں شرکت اور اسی طرح اتحاد عالمی برائے مسلم علما کی بعض کانفرنسوں میں شرکت، اس کے علاوہ بہت سی کانفرنسوں میں شرکت نہیں کر سکے، مثلاً: ریاض کی سنت نبوی کانفرنس، قطر کی بین المذاہب مذاکرات کانفرنس، انڈونیشیا کی اسلامی کانفرنس اور دیگر کانفرنسیں۔ رجب 1431 میں اتحاد عالمی برائے مسلم علما کی دعوت پر ترکی سفر کے بعد ایرانی حکومت نے ان کے پاسپورٹ پر پابندی لگا دی، اس طرح اب ان پر اسفار کی پابندی عائد ہے۔[8]