عبد اللہ بن لہیہ | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
تاریخ پیدائش | سنہ 714ء |
تاریخ وفات | سنہ 790ء (75–76 سال)[1] |
وجہ وفات | طبعی موت |
رہائش | مصر ، حضر موت |
شہریت | خلافت عباسیہ |
کنیت | ابو عبد الرحمٰن |
مذہب | اسلام |
فرقہ | اہل سنت |
عملی زندگی | |
ابن حجر کی رائے | صدوق |
ذہبی کی رائے | صدوق |
استاد | عبدالرحمن بن ہرمز ، موسیٰ بن وردان ، عمرو بن دینار ، عکرمہ مولی ابن عباس ، عطاء بن ابی رباح |
نمایاں شاگرد | شعبہ بن حجاج ، عبد اللہ بن مبارک ، سفیان ثوری ، عبد الرحمن اوزاعی ، لیث بن سعد ، |
پیشہ | محدث |
شعبۂ عمل | روایت حدیث |
درستی - ترمیم |
عبد اللہ بن لہیہ لام کے فتحہ اور ح کے کسرہ کے ساتھ - ابن عقبہ بن فرعان بن ربیعہ بن ثوبان حضرمی، ابو عبد الرحمٰن مصری القاضی، صدوق درجہ کے اور ساتویں صدی میں اس نے اپنی کتابوں کے جلانے کے بعد اسے ملایا، یعنی احادیث کو غلط ملط کر دیا اور ابن مبارک اور ابن وہب کی سند سے روایتیں دوسروں سے زیادہ صحیح ہیں اور مقرون کے بارے میں ان کا کچھ اعتبار ہے، آپ کی وفات ایک سو چوہتر ہجری میں ہوئی۔ اور آپ کی عمر اسّی سال تھی۔ [2]
نام عبد اللہ اورکنیت عبد الرحمن تھی[3]اور سلسلہسلسلہ نسب یہ ہے عبد اللہ بن لہیعہ بن عقبہ بن فرعان بن ربیعہ بن ثوبان [4]مختلف حیثیتوں کی بنا پر حضرمی،اعدولی،اعدولی،غافقی اورمصری تمام نسبتوں سے مشہور ہیں۔ بشر بن منذر کا بیان ہے کہ عبد اللہ بن لہیعہ کی کنیت ابو خریطہ تھی،اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ وہ اپنی گردن میں ایک چارٹ لٹکائے مصر کی شاہراہوں پر گشت کیا کرتے اورجہاں کوئی شیخ مل جاتا تو اس سے اس کے اساتذہ وشیوخ حدیث کے بارے میں سوال کرتے،اگر کسی مستند شیخ کی روایت اس کے پاس مل جاتی،تو اس کا سماع کرکے فورا اسی چارٹ میں نوٹ کرلیتے ،اسی بناپر ابو خریطہ ان کی کنیت ہی پڑ گئی۔ [5]
صحیح روایت کے مطابق 96ھ میں ان کی ولادت ہوئی۔ [6]
انھوں نے ابوہریرہ کے صحابی عبد الرحمٰن بن ہرمز العرج سے سنا اور موسیٰ بن وردان، عطا بن ابی رباح، عمرو بن شعیب، عمرو بن دینار، یزید بن ابی حبیب، ابو وہب جیشانی، مشرہ سے سنا۔ بن حان، عبید اللہ بن ابی جعفر اور عکرمہ مولا - اگر یہ سچ ہے اور کعب بن علقمہ اور قیس بن حجاج اور ابو اسود محمد بن عبد الرحمن یتیم عروہ اور محمد بن منکدر اور ابو الزبیر اور یزید بن عمرو معافیری اور ابو یونس، ابو ہریرہ کے غلام اور ابو اشنہ معافری اور ابو قبیل معافری اور احمد بن خزیم معروف معافری، بکر بن عمرو مافری، شرحبیل بن شریک معافری، عامر بن یحیی معافیری، بکیر بن الاشج اور جعفر بن ربیعہ۔ دراج ابی سمح، عقیل بن خالد، عمرو بن جابر حضرمی اور بہت سے دوسرے۔ ان کی سند پر: ان کے بیٹے احمد بن یونس، ان کے بھتیجے لہیہ بن عیسیٰ، حسن بن موسیٰ اشاب، ثوری، شعبہ اور الاوزاعی، عمرو بن حارث، لیث بن سعد، جو عقرانہ سے ہے، ابن المبارک، عثمان بن صالح سہمی اور یحییٰ بن عبد اللہ بن بکیر، قتیبہ بن سعید، محمد بن رمح بن مہاجر، جو ان کے مہر تھے اور دوسرے محدثین۔[7]
ابن معین نے کہا: یہ ضعیف ہے اور اسے بطور دلیل استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ بخاری نے حمیدی کی روایت سے کہا: یحییٰ بن سعید کچھ نہیں تھے، نعیم بن حماد کہتے ہیں: میں نے عبد الرحمٰن بن مہدی کو کہتے سنا: میں نے ابن لحیہ کی حدیث میں سے کچھ بھی نہیں سنا۔ سوائے ابن مبارک وغیرہ کے سننے کے۔ [8] ، [9]
صرف امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یحییٰ بن بکیر کی روایت پر کہا ہے کہ ابن لہیہ کی کتابیں ایک سو ستر میں جلائی گئی تھیں صرف امام سعید بن ابی مریم نے کہا: اس سے پہلے یا بعد میں امام قتیبہ بن سعید نے کہا کہ جب ابن لحیہ کی کتابیں جلا دی گئیں تو دوسرے دن لیث بن سعد نے اسے ایک ہزار خط بھیجے۔ ابن لحیہ کی کتابوں کو جلا دیا گیا..." امام یحییٰ بن معین نے کہا، "وہ اس سے پہلے کہ ان کی کتابوں کو جلانے کے بعد کمزور تھا، انھوں نے یہ بھی کہا، "وہ ابن لحیہ کے بارے میں ایسا لکھتے ہیں جیسا کہ وہ نہیں تھا۔" اس سے پہلے کہ اس کی کتابیں جلا دی جائیں۔ سوائے امام عبد الرحمٰن بن یوسف بن خراش کے کہ وہ اپنی احادیث لکھتے تھے اور اس کی کتابوں کو جلا دیا جاتا تھا، اس لیے جو کوئی چیز لے کر آتا وہ اسے پڑھ کر سنایا کرتا، چاہے کوئی حدیث مرتب کر کے لائے۔ ابن حبان نے کہا: "اور یہ ضروری تھا کہ بعد کے لوگوں کی روایات کو ان کی کتابوں کے جلانے کے بعد استعمال کیا جائے، جو اس کی حدیثیں نہیں تھیں۔" کہا کرتے تھے کہ جن لوگوں نے اس کی کتابوں کو جلانے سے پہلے ان سے سنا ان کی سماعت نمازیوں کی طرح ہے اس لیے ان کی سماعت درست ہے۔ اس سے پہلے ابو جعفر الطبری نے (تہذیب الاطہر) میں کہا ہے کہ اس کی زندگی کے آخر میں اس کا دماغ مل گیا تھا۔ جیسا کہ معروف وجہ ہے - مسعود نے الحکیم کی سند پر کہا: "اس کا جھوٹ بولنے کا ارادہ نہیں تھا، بلکہ اس نے اپنی کتابوں کو جلانے کے بعد اسے حفظ کر لیا تھا اور اس سے غلطی ہوئی تھی۔" [10] قال الامام يحي بن معين «هو ضعيف قبل ان تحترق كتبه بعد احتراقها»[11] [12] [13]
علمی اعتبار سے وہ ممتاز اتباع تابعین اورحفاظِ حدیث میں تھے، انھیں بکثرت تابعین کرام کا شرفِ دیدار حاصل تھا؛چنانچہ روح بن فلاح کا بیان ہے: لقی ابن لھیعۃ الثنین وسبعین تابعیا [14] عبد اللہ بن لہعیہ نے 72تابعین عظام سے ملاقات کی تھی۔ بلاشبہ اس شرف وسعادت میں ان کے ہم پلہ شاذ و نادر ہی مثالیں مل سکتی ہیں،حدیث اورفقہ میں درجہ امتیاز رکھتے تھے،علما نے ان کے گونا گوں فضل و کمال کو سراہا ہے،سفیان ثوری کا ارشاد ہے: عند ابن لھیعۃ الاصول وعند نا الفروع [15] ابن لہیعہ اصولوں کے حامل تھے اور ہمارے پاس صرف فروع ہیں۔ امام احمدؒ کا قول ہے: ماکان محدث بمصر الا ابن لھیعۃ [16] مصر میں ابن لہیعہ کے علاوہ کوئی محدث ہی نہ تھا۔ قتیبہ کہتے ہیں کہ جب ابن لہیعہ کی وفات ہو گئی تو لیث بن سعد نے برجستہ فرمایا کہ ‘علم و فضل میں انھوں نے اپنا کوئی جانشین نہیں چھوڑا’ [17]
ذکر آچکا ہے کہ ابن لہیعہ کو اپنی بخت آوری کی بنا پر 72 تابعین کرام سے شرفِ لقاء حاصل تھا،ان میں سے اکثر ائمہ کے علاوہ انھوں نے دوسرے کبار اتباع تابعین سے بھی اپنی تشنگی علم کو فرو کیاتھا، ان کے شیوخ واساتذہ کی طویل فہرست میں کچھ ممتاز نام یہ ہیں،عطاء بن ابی رباح، محمد بن المنکدر، عطا بن دینار،محمد بن عجلان،اعرج،ابی الزبیر،موسیٰ بن وردان ،ابی یونس مولیٰ ابی ہریرہ ،عبد الرحمن بن زیاد، عقیل بن خالد۔ اسی طرح خود ابن لہیعہ کے چشمۂ علم سے سیراب ہونے والوں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے جس میں ان کے پوتے احمد اور بھتیجے لہیعہ بن عیسیٰ بن لہیعہ کے علاوہ سفیان ثوری، شعبہ،اوزاعی،عمروبن الحارث لیث بن سعد،عبد اللہ بن مبارک،ابن وہب،ولید بن مسلم، اسد بن موسیٰ،اشہب بن عبد العزیز،یحییٰ بن اسحاق اورقتیبہ بن سعید جیسے دنیائے فضل وکمال کے درخشاں تارے شامل ہیں۔ [18]
ثقاہت وعدالت اورحفظ وضبط میں ابن لہیعہ کا پایہ نہایت ہی بلند تھا، امام احمد کا بیان ہے کہ: لم یکن بمصر مثل ابن لھیعۃ فی کثرۃ حدیثہ وضبطہ واتقانہ [19] مصر میں کثرتِ حدیث،ضبط اوراتقان میں ابنِ لہیعہ عدیم المثال تھے۔ عبد اللہ بن وہب جنہیں ابن لہیعہ سے خصوصی تلمذ کی سعادت حاصل ہے روایت کرتے وقت فرمایا کرتے تھے۔ حدثنی واللہ صادق البار [20] مجھ سے بخدا صادق وسچے شخص نے روایت کیا۔ علاوہ ازیں اوربھی بہت سے بیانات ان کی عدالت وصداقت کے شاہد عدل ہیں،امام بخاری،امام مسلم،نسائی وغیرہ نے ان کی روایات کو اپنی کتابوں میں جگہ دی ہے۔
لیکن ابن لہیعہ کی یہ کیفیت آخر عمر تک قائم نہ رہ سکی اورکبر سنی کی بنا پر دوسرے محدثین کی طرح ان کا حافظہ بھی کمزور ہو گیا تھا؛چنانچہ ابو جعفر طبری بیان کرتے ہیں کہ اختلط عقلہ فی اخر عمرہ [21] اسی بنا پر علما وناقدینِ فن نے ابن لہیعہ کے حفظ وضبط اورثقاہت واتقان کا اعتراف کرنے کے ساتھ جرح کا حق بھی ادا کیا ہے ضعفِ حافظہ کے علاوہ ایک المیہ اوربھی ان کے ساتھ پیش آگیا،جس کی تفصیل یہ ہے کہ اس وقت کے عام دستور کے مطابق ابن لہیعہ نے مختلف شیوخ کی مسموعہ روایات کو بہت سی کاپیوں میں لکھ کر جمع رکھا تھا ،وفات سے 4 سال قبل 170 ھ میں سوءِ اتفاق سے ان کے مکان میں آگ لگ گئی اورروایات کا یہ تمام بیش بہا ذخیرہ جل کر خاکستر ہو گیا۔ اسی وجہ سے علمائے فن کا خیال ہے کہ اس حادثہ عظمیٰ کے پیش آنے سے قبل کی ابن لہیعہ کی روایات قابلِ قبول ہیں؛ لیکن اس کے بعد کی نہیں؛چنانچہ علامہ سمعانی رقم طراز ہیں: کان اصحابنا یقولون ان سماع من سمعہ منہ قبل احتراق کتبہ مثل العبادلہ بسماعھم صحیح ومن سمع بعد احتراق کتبہ فسماعہ لیس بشئی [22] ہمارے بزرگ کہتے تھے کہ چاروں عبد اللہ کی طرح جس کسی نے ابن لہیعہ سے ان کی کتابوں کے جلنے سے قبل سماع حاصل کیا وہ صحیح اوردرست ہے؛لیکن اس حادثہ کے بعد کے سامعین کا سماع غیر مقبول ہے۔ ابن سعد خامہ ریز ہیں: کان ضعیفاً ومن سمع منہ فی اول امرہ احسن حالاً فی روایتہ ممن سمع منہ بآخرہ [23] وہ ضعیف تھے اورجس نے شروع میں ان سے سماع کیا اس کی روایت زیادہ صحیح ہے اس کے مقابلہ میں جس نے آخر عمر میں ان سے سماعت کی۔ امام احمدؒ کا بیان ہے احترقت کتبہ وھو صحیح الکتاب ومن کتب عنہ قدیما فسماعہ صحیح [24] ان کی کتابیں جل گئیں تھیں وہ ثقہ اورصحیح الکتاب تھے،جس نے ان سے شروع ہی میں سماع کیا وہ درست ہے۔ لیکن اہل مصر کا خیال ہے کہ ابن لہیعہ کا حافظہ شروع سے آخر تک یکساں قائم رہا،آخر عمر میں کوئی اختلاط پیدا نہیں ہوا تھا۔ [25]
فقہ وافتاء میں غیر معمولی مہارت اوردقیقہ رسی حاصل تھی،اس خصوصیت کی بنا پر عہدِ عباسی میں مسند قضا کی بھی زینت بنے،جب 155ھ میں قاضی مصر ابو خزیمہ کی وفات ہو گئی،تو خلیفہ ابو جعفر منصور نے عبد اللہ بن لہیعہ کو بصد اکرام واعزاز مصر کا قاضی مقرر کیا، اس سلسلہ میں انھیں یہ خصوصیت حاصل ہے کہ وہ سب سے پہلے قاضی ہیں جن کا تقرر خود خلیفہ نے کیا،ورنہ اس سے پہلے تمام صوبوں کے والی اپنے اپنے علاقہ میں قضاۃ کا انتخاب وتقرر کرتے تھے [26]خلیفہ نے تیس دینار ماہانہ ان کا منصبی مشاہرہ بھی متعین کیا تھا،مصر کے قضاۃ میں سب سے پہلے انھی کو یہ وظیفہ ملا۔ [27] انھوں نے تقریباً 9 سال تک اپنے منصبی فرائض کو نہایت حسن وخوبی کے ساتھ انجام دیا اور پھر ماہ ربیع الاول 164ھ میں اس سے سبکدوش ہو گئے۔
سنہ وفات کے بارے میں مختلف اقوال ملتے ہیں،لیکن اصح یہ ہے کہ ہارون الرشید کے ایامِ خلافت میں یومِ یکشنبہ 15 ربیع الاول 174 ھ کو ان کی زندگی کا چراغ گل ہوا، وفات کے وقت 81 سال کی عمر تھی۔ [28]
۔[29]
[30]8>