عمرانہ جنسی زیادتی واقعہ ایک جنسی حملہ تھا جو 28-سالہ بھارتی مسلمان خاتون پر اسی کے سسر نے بتاریخ 6 جون 2005ء کو چرتھاول گاؤں، ضلع مظفرنگر اتر پردیش، بھارت (دہلی سے 70 کلومیٹر) میں کیا تھا۔ گاؤں کے بزرگوں اور بعد میں اسلامی شریعت کے مطابق عمومی نقطہ نظر کے حساب سے عمرانہ کا شوہر سے نکاح فاسد قرار پایا، جیسا کہ شریعت باپ اور بیٹے دونوں کے ساتھ جنسی تعلق پر قدغن لگاتی ہے۔ اس سے ملک بھر میں تنازع پیدا ہو گیا ناقدین نے اعتراض کیا کہ اس واقعے کو بطور زنا کے لیا گیا جب کہ یہ جنسی زیادتی تھی۔[1][2]
بتاریخ 6 جون 2005ء، عمرانہ، 28 سالہ خاتون اور 5 بچوں کی ماں، اس کو 69 سالہ خسر علی محمد نے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا۔[3][4][5][6]
جنسی زیادتی کے بعد جلد ہی، ایک مقامی مسلمان پنچایت (بزرگوں کا اجلاس) نے اس کے شوہر نور الہی کے متعلق فیصلہ دیا کہ اب خسر کی زناکاری کے بعد عمرانہ کی زوجیت بدل گئی اور وہ اپنے خسر کی بیوی ہو گئی۔۔[7] عمرانہ نے پنچایت کے فیصلے کی مخالفت کی اور اپنے شوہر کے ساتھ رہتی رہی۔
معروف اسلامی مدرسے دار العلوم دیوبند نے بھی ایک فتوی[8] یا رائے، جس میں قرآن کا حوالہ 4:23: وَلَا تَنۡكِحُوۡا مَا نَكَحَ اٰبَآؤُكُمۡ، “اور ان سے نکاح مت کرنا جن سے تمھارے باپ نے نکاح کیا” اگر کسی شخص نے اپنے بیٹے کی بیوی کے ساتھ زنا کیا اور گواہوں کی گواہی سے یہ فعل ثابت ہو جائے یا اس کا بیٹا اس کی تصدیق کرے یا خود وہ اقرار کرے تو اس سے حرمت مصاہرت ثابت ہوجاتی ہے۔[9] پنچایت کے فیصلہ دینے کے بعد بھی عمرانہ اپنے شوہر کے ساتھ رہنے لگی اور اس فتوی کو رد کر دیا جو بطور اسلامی حکم کے اسے دیا گیا کہ وہ اب اپنے شوہر کی بیوی نہیں رہی۔ فتوی نے گاؤں کی پنچایت کی حمایت کی، جس میں اس بات کو یکسرنظر انداز کیا گیا جو سسر کی طرف سے بہو کے ساتھ زبردستی کا معاملہ تھا اور یوں اسلامی تعلیمات کے غیر معمولی امتیاز کو پیش نظر نہیں رکھا گیا، جو زنا اور جنسی زیادتی میں رکھا جانا چائیے۔[10]
یہ فتوی ابو حنیفہ کی فقہ (حنفی فقہ) کی بنیاد پر تھا، جس میں کس شخص کا کسی خاتون کے ساتھ جنسی تعلقات کی وجہ سے شادی کا حکم ہے۔ دیگر تین فقہی مکاتب فکر، فقہ مالکی، شافعی اور حنبلی، نے اس کو رد کیا۔[11][12] آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے عمومی فتوے کو نام لے کر عمرانہ کے واقعے سے جوڑ دیا اور اس کی حمایت کر دی،[13] لیکن حنفی اور شافعی آرا میں بٹ گئے،[11]یہ دو سنی فقہی مکاتب فکر ہیں جن پر بھارتی مسلمانوں کی اکثریت عمل کرتی ہے۔
بعد ازاں، مدرسہ دیوبند نے انکار کیا کہ اس نے ایسا کوئی فتوی جاری کیا۔
پولیس محمد علی کو تعزیرات ہند کی دفعہ 376 (جنسی زیادتی/عصمت دری) اور دفعہ 506 (مجرمانہ دھمکیاں) کے تحت مقدمہ درج کر کے گرفتار کر لیا۔ پولیس نے اس کے خلاف 30 جون 2005ء کو ایک مقدمہ طبی جانچ کے ساتھ دائر کیا اور مجسٹریٹ کے سامنے عمرانہ کا بیان قلمبند کیا گیا۔ عدالت نے 5 دسمبر 2005ء کو محمد علی کی درخواست ضمانت رد کر دی۔
عمرانہ کے ساتھ جنسی زیادتی واقعے کا خط زمانی: