غلام محمد قاصر | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 4 ستمبر 1944ء پہاڑ پور، خیبر پختونخوا |
وفات | 20 فروری 1999ء (55 سال) پشاور |
شہریت | پاکستان برطانوی ہند |
عملی زندگی | |
پیشہ | شاعر |
اعزازات | |
درستی - ترمیم |
غلام محمد قاصر پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو کے ممتاز شاعر، ڈراما نگار، گیت نگار اور نقاد تھے۔
غلام محمد قاصر 1944ء میں پاکستان کے شہر ڈیرہ اسماعیل خان سے 40 کلومیٹر شمال میں واقع ایک چھوٹے سے قصبے پہاڑ پور میں پیدا ہوئے۔
ان کے تین شعری مجموعے تسلسل، آٹھواں آسماں بھی نیلا ہے اور دریائے گماں شائع ہوئے جنھوں نے سنجیدہ ادبی حلقوں میں بے پناہ پزیرائی حاصل کی اور قاصر کو جدید اردو غزل کے نمائندہ شعرا میں ایک منفرد مقام کا حامل قرار دیا گیا۔ ان کا تمام شعری کلام جس میں مذکورہ بالا تینوں مجموعے اور غیر مطبوعہ و غیر مدون کلام شامل ہے۔ کلیاتِ قاصر (اک شعر ابھی تک رہتا ہے ) کے عنوان سے 2009ء میں شائع ہو چکا ہے۔
انھوں نے پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان کے لیے متعدد ڈرامے اور پروگرام لکھے جو ناظرین و سامعین میں بے حد مقبول ہے۔ قاصر کا تحریر کردہ ڈراما سیریل تلاش اور بچوں کے لیے کھیل بھوت بنگلہ نے خاص طور پر بہت مقبولیت حاصل کی۔ قاصر نے پاکستان کے کچھ اہل قلم پر عمدہ مضامین رقم کیے۔ پاکستان اور بیرون ملک پاکستان منعقد ہونے والے مشاعروں اور ادبی کانفرنسوں میں شرکت بھی کی۔ جبکہ این ڈبلیو ایف پی ٹیکسٹ بک بورڈ کے لیے ساتویں، گیارہویں جماعت کے لیے نصاب مرتب کیا۔
گورنمنٹ ہائی اسکول پہاڑ پور سے میٹرک کرنے کے بعد اسی اسکول میں بطور ٹیچر تقرری ہوئی۔ تاہم ملازمت کے ساتھ ساتھ پرائیویٹ طور پر تعلیمی سلسلہ جاری رکھا اور اردو ادب میں ایم اے کیا۔ اور اس کے بعد ڈیرہ اسماعیل خان کے نواحی علاقوں میں تدریس کے شعبے سے منسلک رہے۔ 1975ء میں بطور لیکچرار پہلی تقرری گورنمنٹ کالج مردان میں ہوئی۔ اس کے بعد سپیرئیر سائنس کالج پشاور، گورنمنٹ کالج درہ آدم خیل، گورنمنٹ کالج پشاور، گورنمنٹ کالج طورو اور گورنمنٹ کالج پبی میں درس و تدریس کے شعبہ سے وابستہ رہے۔
اسی دوران کہیں سے شعر کی چنگاری پھوٹی جس نے بالآخر پورے ملک میں ان کے نرالے طرزِ ادا کے شعلے بکھیر دیے۔ حتیٰ کہ 1977ء میں جب ان کا پہلا شعری مجموعہ ’تسلسل‘ شائع ہوا تو اس کے بارے میں ظفر اقبال جیسے لگی لپٹی نہ رکھنے والے شاعر نے لکھا کہ میری شاعری جہاں سے ختم ہوتی ہے قاصر کی شاعری وہاں سے شروع ہوتی ہے۔ بقول معروف ادیب و محقق اور کالم نگار جناب وجاہت علی عمرانی کہ ساٹھ کی دہائی کے اواخر کی بات ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک عظیم الشان کل پاکستان مشاعرہ منعقد ہوا جس میں اس دور کے اکثر نامی گرامی شعرا نے حصہ لیا، جن میں ناصر کاظمی، منیر نیازی، احمد ندیم قاسمی، قتیل شفائی، محبوب خزاں وغیرہ شامل تھے۔ مشاعرے کے آغاز ہی میں ایک نوجوان شاعر کو کلام سنانے کی دعوت دی گئی۔ ایک چوبیس پچیس سالہ دبلے پتلے اسکول ٹیچر نے ہاتھوں میں لرزتے ہوئے کاغذ کو بڑی مشکل سے سنبھال کر ایسے لہجے میں غزل سنانا شروع کی جسے کسی طرح بھی ٹکسالی نہیں کہا جا سکتا تھا۔ لیکن اشعار کی روانی، غزلیت کی فراوانی اور خیال کی کاٹ ایسی تھی کہ بڑے ناموں کی باری کے منتظر سامعین بھی نوٹس لینے پر مجبور ہو گئے۔ جب نوجوان اس شعر پر آئے تو نہ صرف گاؤ تکیوں سے ٹیک لگائے شعرا یک لخت اٹھ بیٹھے اور بلکہ انھوں نے تمام سامعین کی آواز میں آواز ملا کر وہ داد دی کہ پنڈال کی محاوراتی چھت اڑ گئی۔ شعر تھا:
تم یوں ہی ناراض ہوئے ہو ورنہ میخانے کا پتہ
ہم نے ہر اس شخص سے پوچھا جس کے نین نشیلے تھے
لوگ ایک دوسرے سے پوچھنے لگے کہ یہ کون ہے؟ اس سوال کا جواب غزل کے آخری شعر میں شاعر نے خود ہی دے دیا:
کون غلام محمد قاصر بیچارے سے کرتا بات
یہ چالاکوں کی بستی تھی اور حضرت شرمیلے تھے
قاصر نے ظفر اقبال اور ان کے دور کے بعض دوسرے جدید غزل گو شعرا کی طرح زبان کے ساتھ زیادہ اٹکھیلیاں نہیں کھیلیں، بلکہ لسانی تشکیلات کے باوجود روایت اور کلاسیکی زبان کا دامن تھامے رکھا۔ تاہم انھوں نے روایت میں بھی جدت اور ندرت کا مظاہرہ کیا ہے۔
میں بدن کو درد کے ملبوس پہناتا رہا
روح تک پھیلی ہوئی ملتی ہے عریانی مجھے
گلیوں کی اداسی پوچھتی ہے، گھر کا سناٹا کہتا ہے
اس شہر کا ہر رہنے والا کیوں دوسرے شہر میں رہتا ہے
لاہور اور کراچی جیسے اردو کے بڑے دبستانوں سے دور بیٹھ کر شعر کی جوت جگانے والے قاصر کے موضوعات اور انھیں برتنے کا انداز سادہ ہے، لیکن اس سادگی میں بھی جذبے کی ایسی صداقت دکھائی دیتی ہے جو قاری کو چونکا دیتی ہے۔ احمد ندیم قاسمی ان کے بارے میں لکھتے ہیں: ’جب کوئی سچ مچ کا شاعر بات کہنے کا اپنا سلیقہ روایت میں شامل کرتا ہے تو پوری روایت جگمگا اٹھتی ہے۔
نظر نظر میں ادائے جمال رکھتے تھے
ہم ایک شخص کا کتنا خیال رکھتے تھے
جبیں پہ آنے نہ دیتے تھے اک شکن بھی کبھی
اگرچہ دل میں ہزاروں ملال رکھتے تھے
قاصر نے اپنے زمانے میں چلنے والی ادبی تحریکوں سے دامن بچائے رکھا۔ انھوں نے ترقی پسندوں کی انگلی تھامی، نہ جدیدیت کے پیروکاروں سے زیادہ سروکار رکھا، لیکن ان کی وسعتِ نظر ایسی ہے جو انسانی نفسیات کی اتھاہ گہرائیوں میں کمال سہولت سے اتر جاتی ہے:
کشتی بھی نہیں بدلی، دریا بھی نہیں بدلا
ہم ڈوبنے والوں کا جذبہ بھی نہیں بدلا
پہلے اِک شخص میری ذات بنا
اور پھر پوری کائنات بنا
کیا کروں میں یقیں نہیں آتا
تم تو سچے ہو بات جھوٹی ہے
قاصر کے ہاں روایت اور جدت کے امتزاج کی ایک اور مثال یہ ہے کہ وہ اساطیری روایات کو پلٹ کر انھیں نیا رنگ عطا کر دیتے ہیں اور ہزاروں بار سنی ہوئی بات بھی اچھوتی ہو جاتی ہے:
بیکار گیا بن میں سونا میرا صدیوں کا
اس شہر میں تو اب تک سِکہ بھی نہیں بدلا
آگ درکار تھی اور نور اٹھا لائے ہیں
ہم عبث طور اٹھا لائے ہیں
پیاس کی سلطنت نہیں مٹتی
لاکھ دجلے بنا فرات بنا
یوں تو قاسمی، ظفر اقبال، احمد فراز، قتیل شفائی، شہزاد احمد، صوفی تبسم، رئیس امروہوی جیسے کئی مشاہیر نے قاصر کی ستائش کی ہے، لیکن مشہور کالم نگار منو بھائی نادانستگی میں اپنے ایک کالم میں قاصر کا یہ شعر میر کے نام سے نقل کر گئے:
کروں گا کیا جو محبت میں ہو گیا ناکام
مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا
کسی بھی نئے یا پرانے شاعر کو اس سے بڑھ کر داد نہیں دی جا سکتی۔
قاصر کی زندگی میں ان کے تین شعری مجموعے شائع ہوئے، ’تسلسل،‘ ’آٹھواں آسمان بھی نیلا ہے،‘ اور ’دریائے گمان،‘ جب کہ کلیات ’اک شعر ابھی تک رہتا ہے‘ مرنے کے بعد شائع ہوئی۔قاصر نے کئی مقبول ٹیلی ویژن ڈرامے بھی لکھے جن میں ’بھوت بنگلہ‘ اور ’تلاش‘ شامل ہیں
تین ماہ تک جگر کے سرطان میں مبتلا رہنے کے بعد غلام محمد قاصر 20 فروری 1999ء کو اس جہان فانی سے رخصت ہو گئے۔ ان کی وفات پر ادبی حلقوں میں یہ بازگشت سنائی دی گئی کہ جدید غزل کے امکانات کا شاعر رخصت ہو گیا ہے۔ پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان نے غلام محمد قاصر کے انتقال پر تعزیتی پروگرام نشر کیے۔