خادم القرآن و المساجد، مولانا غلام محمد وستانوی | |
---|---|
دار العلوم دیوبند کے بارہویں مہتمم | |
برسر منصب 10 جنوری 2011ء سے 24 جولائی 2011ء | |
پیشرو | مرغوب الرحمن بجنوری |
جانشین | ابو القاسم نعمانی |
رکنِ مجلسِ شوری دارالعلوم دیوبند | |
برسر منصب 1419ھ مطابق 1998ء سے تاحال | |
ذاتی | |
پیدائش | کوساڑی، سورت ضلع، گجرات | 1 جون 1950
مذہب | اسلام |
فقہی مسلک | حنفی |
تحریک | دیوبندی |
مرتبہ | |
غلام محمد وستانوی (پیدائش: 1 جون 1950ء) ایک ہندوستانی مسلمان عالم دین اور دارالعلوم دیوبند کے سابق اور بارہویں مہتمم ہیں۔ دارالعلوم دیوبند کے اداروں میں طب اور انجینئرنگ جیسے مضامین متعارف کرواتے ہوئے مدرسہ تعلیم کی اصلاح میں ان کا اہم کردار تھا۔[1]
غلام محمد بن محمد اسماعیل بن محمد ابراہیم بن محمد وستانوی کی پیدائش 1 جون 1950ء کو کوساڑی، سورت، گجرات میں ہوئی۔[2] ان کے آباء و اجداد نے 1952 یا 1953ء میں کوساڑی سے منتقل ہوکر وستان میں بود و باش اختیار کر لی تھی، اسی وجہ سے وستان کی طرف نسبت کرتے ہوئے انھیں وستانوی کہا جاتا ہے۔[2]
وستانوی نے قرآن مجید اپنے وطن کوساڑی ہی کے مدرسہ قوۃ الاسلام میں رہ کر پڑھا، اس کے بعد اپنے نانیہال ہتھورن (سورت) اور مدرسہ شمس العلوم بڑوڈہ میں بھی ابتدائی کتابیں مختلف اساتذۂ کرام سے پڑھیں۔ 1964ء میں گجرات کے مشہور و معروف مدرسہ فلاح دارین ترکیسر میں داخل ہوئے اور مسلسل آٹھ سال رہ کر 1982ء کے اوائل میں سند فراغت حاصل کی۔ ان کے اساتذۂ فلاح دارین ترکیسر میں احمد بیمات، عبد اللہ کاپودروی، شیر علی افغانی اور ذو الفقار علی جیسے نامور علما شامل ہیں۔[2]
فلاح دارین سے فراغت کے بعد مزید علمی پیاس بجھانے کے لیے 1982ء کے اواخر میں مظاہر علوم سہارنپور چلے گئے۔ وہاں حضرت محمد یونس جونپوری سے صحیح البخاری اور دیگر اساتذۂ دورۂ حدیث سے دورۂ حدیث کی کتابیں پڑھ کر 1973ء میں فراغت حاصل کی۔[2][3]
فراغت کے بعد قصبہ بوڈھان(سورت ضلع کے ایک گاؤں) میں انھوں نے دس دن پڑھایا، اس کے بعد 1973ء کے اواخر میں دار العلوم کنتھاریہ (بھروچ) چلے گئے اور وہاں فارسی سے لے کر متوسطات تک کی مختلف علوم وفنون کی کتابیں پڑھائیں۔[2]
زمانۂ قیام کنتھاریہ ہی میں 1980ء میں جامعہ اشاعت العلوم اکل کوا کی بنیاد ڈالی، جس کی ابتدا ’’مکرانی پھلی محلہ‘‘ سے کی گئی، ابتدا میں ان کا قیام کنتھاریہ میں ہی رہا، اس دوران مولانا یعقوب خانپوری (ناظم مکاتب و ناظم تعمیرات) اور ان کے برادر حافظ محمد اسحاق (نائب مہتمم) نظامت سنبھالتے رہے؛ لیکن جب انھوں نے دیکھا کہ یہاں رہتے ہوئے مکمل نظم وضبط دشوار ہوگا تو پھر استعفی دے کر مستقل اکل کوا تشریف لے آئے، جب سے اب تک رئیس الجامعہ کے عہدے پر فائز ہیں۔[2]
1419ھ مطابق 1998ء میں ان کو مجلس شورٰی دار العلوم دیوبند کا رکن بنایا گیا۔[3] مرغوب الرحمن بجنوری کے انتقال کے بعد مجلس شورٰی دار العلوم دیوبند کے اجلاس منعقدہ 5 صفر 1432ھ مطابق 11-10 جنوری 2011ء میں ان کو عہدۂ اہتمام کے لیے منتخب کیا گیا۔ وہ 21 شعبان 1432ھ مطابق 23 جولائی 2011ء تک اس منصب پر فائز رہے ۔ اس طرح صفر سے شعبان 1432ھ/ جنوری تا جولائی 2011ء تک (کل سات ماہ) وہ دار العلوم دیوبند کے مہتمم رہے۔[3]