غلام مصطفٰی خان

غلام مصطفٰی خان

معلومات شخصیت
پیدائش 1 جولا‎ئی 1912ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
جبل پور ،  برطانوی ہند   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 25 ستمبر 2005ء (93 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
حیدرآباد ،  پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت برطانوی ہند
پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی راشٹرسنت تکڑو جی مہاراج ناگپور یونیورسٹی   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تعلیمی اسناد پی ایچ ڈی ،  ڈاکٹر آف لیٹرز   ویکی ڈیٹا پر (P512) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ڈاکٹری طلبہ جمیل جالبی   ویکی ڈیٹا پر (P185) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ماہرِ لسانیات ،  فلسفی ،  فرہنگ نویس ،  ادبی نقاد ،  ماہر شماریات   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو ،  فارسی ،  انگریزی ،  عربی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل صرف و نحو ،  لغت نویسی ،  فلسفہ ،  تحقیق ،  ترجمہ ،  ادبی تنقید   ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ملازمت جامعہ سندھ   ویکی ڈیٹا پر (P108) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اعزازات
باب ادب

ڈاکٹرغلام مصطفٰی خان، (پیدائش: 1 جولائی، 1912ء - وفات: 25 ستمبر، 2005ء) پاکستان کی ممتاز روحانی شخصیت، محقق، ماہر لسانیات، عالم دین، مترجم، ماہرتعلیم اور جامعہ سندھ میں پروفیسر ایمریطس تھے۔ وہ ناگپور یونیورسٹی، بھارت اور جامعہ سندھ کے صدرشعبۂ اردو کے عہدے پر فائز رہے۔

حالات زندگی

[ترمیم]

ڈاکٹر غلام مصطفٰی خان جبل پور، ہندوستان میں 1 جولائی، 1912ء کو پیدا ہوئے۔[1]

تعلیم

[ترمیم]

ڈاکٹر غلام مصطفٰی خان نے ابتدائی تعلیم جبل پور، برطانوی ہندوستان سے حاصل کی۔ اس کے بعد مزید تعلیم کے لیے آپ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی تشریف لے گئے اور ایل ایل بی، ایم اے (اردوایم اے (فارسی) اور 1947ء میں بارہویں صدی کے مشہور فارسی شاعر سید حسن غزنوی - حیات و ادبی کارنامے کے عنوان سے مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ 1959ء میں ناگپور یونیورسٹی، ہندوستان سے آپ نے ڈاکٹر آف لیٹرز (ڈی لٹ) کی ڈگری حاصل کی۔

ملازمت

[ترمیم]

ڈاکٹر غلام مصطفٰی خان نے ملازمت کی شروعات کنگ ایڈورڈ کالج امراوتی، ہندوستان سے بحیثیت لیکچرار کی۔ 1936ء سے 1948ء تک وہ ناگپور یونیورسٹی ہندوستان کے شعبہ اردو سے وابستہ رہے۔ قیام پاکستان کے بعد انھوں نے پہلے کراچی میں سکونت اختیار کی اور 1950ء میں بابائے اردو کی درخواست پر اردو کالج کراچی کے صدر شعبۂ اردو کے عہدے پر فائز ہوئے۔ بعد ازاں وہ علامہ آئی آئی قاضی اور ڈاکٹر نبی بخش بلوچ کے اصرار پر جامعہ سندھ سے منسلک ہو گئے جہاں انھیں صدرشعبۂ اردو کی ذمہ داریاں تفویض کی گئیں۔ وہ اس عہدے پر 1976ء تک فائز رہے۔ 1988ء میں جامعہ سندھ میں آپ کی علمی، ادبی اور تحقیقی خدمات کے طور پر آپ کو پروفیسر ایمریطس کے درجے پر فائز کیا[1]۔ آپ کے شاگردوں میں ابن انشا، ڈاکٹر ابواللیث صدیقی، ڈاکٹراسلم فرخی، ڈاکٹر جمیل جالبی، ڈاکٹر فرمان فتح پوری، ڈاکٹر ظفر اقبال، ڈاکٹر ابوالخیر کشفی، ڈاکٹر الیاس عشقی اور قمرعلی عباسی شامل ہیں۔

ادبی خدمات

[ترمیم]

ڈاکٹر غلام مصطفٰی خان اپنی ہمہ جہتی کے جن حوالوں سے جانے جاتے ہیں ان میں معتبر ترین حوالہ آپ کی تحقیق ہے۔ اور اس حوالے سے آپ نے وہ حیرت انگیز کام سر انجام دیے ہیں جو اب تک تشنہ تحقیق تھے۔ لسانیات سے لے کر شخصیات تک آپ کے تحریر کردہ مقالات اور مضامین نے اردو ادب کے لیے فکر کے نئے نئے دریچے وا کیے ہیں۔ ایک اور بات جو ڈاکٹر صاحب کی تحقیقی نثر کو دیگر تمام لوگوں سے منفرد اور ممتاز کرتی ہے وہ اس تحریر کی روانی اور نرم روی ہے۔ موضوع کیسا ہی خشک اور بے روح کیوں نہ ہو۔ آپ کے قلم کی زد میں آتے ہی پانی ہوجاتا ہے۔ اور بحث ایک دریا کی طرح رواں دواں قاری کی نظر سے ہوتی ہوئی اس کے ذہن میں اترتی چلی جاتی ہے۔[2]

آپ نے اردو، عربی، فارسی اور انگریزی میں 100 سے زائد کتب تصنیف و تالیف کیں۔ آپ کی کتاب اقبال اور قرآن پر آپ کو اقبال ایوارڈ دیا گیا۔ اس کے علاوہ ادبی جائزے، فارسی پر اردو کا اثر، علمی نقوش، اردو-سندھی لغت، سندھی-اردو لغت، حالی کا ذہنی ارتقا، تحریر و تقریر، حضرت مجدد الف ثانی، گلشن وحدت، مکتوبات سیفیہ، خزینۃ المعارف، مکتوبات مظہریہ، مکتوبات معصومیہ، اقبال اور قرآن، معارف اقبال، ردو میں قرآن و حدیث کے محاورات، فکر و نظر اور ہمہ قرآن در شان محمدؐ کے نام سرفہرست ہیں۔[1]

ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خاں۔ایک عظیم استاد، محقق اور ماہرِ لسانیات

[ترمیم]

”ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خاں۔ایک عظیم استاد، محقق اور ماہرِ لسانیات“[3] کے عنوان سے محمد عثمان بٹ کا مضمون 2021ء میں شائع ہوا۔ یہ مضمون غلام مصطفیٰ خاں کے احوال و آثار کو واضح کرتا ہے۔ اُن کی شخصیت، تعلیم، ملازمت، تصانیف اور اعزازات کو ایک خاص ترتیب سے پیش کیا گیا ہے۔ اِس کے علاوہ اُن کے لسانی تصورات کا تحقیقی و تجزیاتی مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔

اعزازات

[ترمیم]

ڈاکٹر غلام مصطفٰی خان کی ادبی و تعلیمی خدمات کے صلہ میں حکومت پاکستان نے صدارتی اعزاز برائے حسن کارکردگی اور ستارہ امتیاز سے نوازا[1]۔ اس کے علاوہ نقوش ایوارڈ، اقبال ایوارڈ اور انجمن ترقی اردو کی طرف سے نشان سپاس کے اعزازات بھی دیے گئے۔

تصانیف

[ترمیم]
  1. ادبی جائزے
  2. فارسی پر اردو کا اثر
  3. فارسی کے قدیم شعرا
  4. علمی نقوش
  5. اردو-سندھی لغت
  6. سندھی-اردو لغت
  7. حالی کا ذہنی ارتقا
  8. تحریر و تقریر
  9. حضرت مجدد الف ثانی
  10. تحقیقی جائزے
  11. تاریخِ بہرام شاہ غزنوی (انگریزی زبان میں یہ مقالہ بہرام شاہ غزنوی کی 41 سالہ دورِ حکومت کا جائزہ ہے)
  12. تاریخِ اسلاف
  13. گلشن وحدت
  14. مکتوبات سیفیہ
  15. ارشادِ رحیمیہ از حضرت شاہ عبد الرحیم محدث دہلوی (اردو ترجمہ)
  16. لوایح خانقاہ مظهریہ، فارسی (ترتیب)
  17. خزینۃ المعارف
  18. زبدة المقامات (اردو ترجمہ)
  19. مکتوبات مظہریہ
  20. مکتوبات معصومیہ
  21. تفسیرِ شیخ الہند (انگریزی)
  22. حضرات القدس (انگریزی)
  23. اقبال اور قرآن
  24. مطالب القرآن
  25. معارف اقبال
  26. ضیاء القران
  27. اردو میں قرآن و حدیث کے محاورات
  28. فکر و نظر
  29. ہمہ قرآن در شان محمدؐ
  30. ہدایۃ الطالبین از حضرت شاہ ابو سعید مجددی نقشبندی (نقشبندیہ سلوک سے متعلق رسالہ کا اردو ترجمہ)
  31. باقیاتِ باقی (حضرت خواجہ محمد الباقی باللہ دہلوی نقشبندی کی حیات طیبہ پر ایک علمی مقالہ)
  32. مولانا عبید اللہ سندھی کی سرگزشتِ کابل
  33. بھولی ہوئی کہانیاں
  34. وقائع تاریخی (1408 ہجری)
  35. چند منسوبات
  36. دیوانِ مرزا مظہر و خریطہ جواہر
  37. تحفۂ زواریہ (حضرت شاہ احمد سعید دہلوی متوفی:1277ھ کے نایاب فارسی مکتوبات کا مجموعہ)
  38. رسائل مشاہیر نقشبندیہ
  39. ہمارا علم و ادب
  40. قرآنی عربی
  41. تفسیر مولانا عبید اللہ سندھی
  42. جامعہ القواعد
  43. اوراقِ گم گشتہ
  44. سید حسن غزنوی - حیات و ادبی کارنامے (فارسی کے بزرگ شاعر سید حسن غزنوی کی حیات اور فکر و فن پر محققانہ جائزہ)
  45. ندائے سحر
  46. سراج منیر
  47. لہم مغفرہ
  48. میرا علی گڑھ
  49. متفرقات
  50. Personal Hygiene in Islam
  51. Studies in Literature

ناقدین کی رائے

[ترمیم]

مصنف مظہر شیرانی ڈاکٹر غلام مصطفٰی خان کے بارے میں لکھتے ہیں کہ :

ڈاکٹر غلام مصطفٰی خان قبلہ کی نظر صحیح معنوں میں کیمیا اثر تھی۔ ان کے تصر ف کا ایک واقعہ ڈاکٹر اسلم فرخی کے حوالے سے یہاں درج کرتا ہوں۔ 1988ء میں جب ڈاکٹر صاحب کو انجمن ترقی اردو کی طرف سے "نشان سپاس" پیش کیا جانا تھا، ان دنوں انجمن کے صدر نور الحسن جعفری تھے۔ وہ حکومت پاکستان کے معتمد مالیات کے عہدے سے سبکدوش ہوئے تھے اور 'صاحب' آدمی تھے۔ انہوں نے ڈاکٹر صاحب کے اعزاز میں جلسے کی اجازت تو دے دی لیکن خود اس میں شرکت سے معذرت کرلی۔ بہرحال انجمن کے دوسرے کار پردازان کے اصرار پر نور الحسن جعفری جلسے کی صدارت پر آمادہ ہوگئے۔ مختلف تقاریر کے بعد آخر میں جعفری صاحب صدارتی کلمات کہنے کے لیے مائیک پر آئے تو بجائے کچھ کہنے کے زار و قطار رونے لگے۔پھر ہاتھ جوڑ کر بولے حضرت ڈاکٹر غلام مصطفٰی خان صاحب، مجھے معاف کردیجیے۔ میں آپ کے مقامات ظاہری اور مراتب باطنی سے بالکل بے خبر تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے اٹھ کر انہیں سینے سے لگایا اور تسلی دی تب کہیں جا کر ان کو قرار آیا[4]۔

وفات

[ترمیم]

ڈاکٹر غلام مصطفٰی خان 25 ستمبر 2005ء کو حیدرآباد، پاکستان میں انتقال کر گئے۔ وہ احاطہ مسجد غفور یہ نزد ٹول پلازہ سپر ہائی وے بائی پاس حیدرآباد میں آسودۂ خاک ہیں۔[1]۔[5]

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. ^ ا ب پ ت ٹ عقیل عباس جعفری:پاکستان کرونیکل، ورثہ / فضلی سنز، کراچی، 2010ء، ص 954
  2. "آرکائیو کاپی"۔ 06 مارچ 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 اکتوبر 2015 
  3. محمد عثمان بٹ (22 مئی 2021ء)۔ "ڈاکٹر غلام مصطفی خاں۔ایک عظیم استاد، محقق اور ماہرِ لسانیات"۔ اُردو پوائنٹ۔ پاکستان۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 اگست 2023ء 
  4. کہاں سے لاؤں انہیں، راشد اشرف، ہماری ویب کراچی، پاکستان[مردہ ربط]
  5. "Official Website – Hazrat Dr. Ghulam Mustafa Khan حضرت ڈاکٹر غلام مصطفٰی خاں صاحب"۔ 24 نومبر 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 اکتوبر 2015