فاطمہ زبیریہ | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
مقام پیدائش | زبیر |
وفات | سنہ 1831ء مکہ |
عملی زندگی | |
استاذہ | إبراهيم بن حديد |
پیشہ | [[:فقیہ|فقیہہ]] ، [[:محدث|محدثہ]] |
درستی - ترمیم ![]() |
فاطمة بنت حمد فضيلیہ حنبليہ زبيريہ (1200ھ-1247ھ) فاطمہ بنت حمد الفضیلی الحنبلی الزبیریہ، جو "الشیخة الفضیلیہ" کے نام سے معروف تھیں، ایک محدثہ، فقیہہ اور حنبلی عالمہ تھیں۔ ان کا تعلق عراق کے جنوبی علاقے، بلدة الزبیر سے تھا۔ وہ صوفیہ تھیں اور انھوں نے نقشبندی اور قادری سلسلے اختیار کیے۔ اپنی زندگی کے آخری ایام میں وہ ہجرت کرکے مکہ مکرمہ چلی گئیں، وہاں حج ادا کیا اور وہیں وفات پائی۔ انھیں جنت المعلیٰ میں دفن کیا گیا۔
محمد بن حمید نے اپنی کتاب السحب الوابلة على ضرائح الحنابلہ میں ان کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ فاطمہ بنت حمد ایک نیک، عبادت گزار، زاہدہ اور علم و فضل کی حامل خاتون تھیں۔ وہ تقریباً 1200ھ کے قریب زبیر میں پیدا ہوئیں اور وہیں نشو و نما پائی۔ انھوں نے اپنے علاقے کے علما سے علومِ دین حاصل کیے اور شیخ ابراہیم بن جدید سے تفسیر، حدیث، اصولِ فقہ، فقہ اور تصوف کی تعلیم حاصل کی۔ مزید برآں، انھوں نے دیگر کئی علما سے بھی اکتسابِ علم کیا۔[1][2][3] شیخة الفضیلیہ کا علم کے ساتھ گہرا تعلق تھا۔ انھوں نے بچپن ہی سے خطاطی سیکھی اور اسے خوب مہارت کے ساتھ سیکھا، یہاں تک کہ مختلف موضوعات پر بے شمار کتابیں نقل کیں۔ ان کا خط نہایت خوبصورت، واضح اور منضبط تھا۔ انھیں کتابیں جمع کرنے کا بہت شوق تھا اور انھوں نے مختلف علوم و فنون پر مشتمل نہایت نادر و مفید کتب کا ذخیرہ جمع کیا تھا۔ وہ حدیث اور اہلِ حدیث سے خصوصی محبت رکھتی تھیں، چنانچہ انھوں نے متعدد مسلسلات سنی اور حدیث کی کئی کتب کا مطالعہ کیا۔ متعدد جید علما نے انھیں اجازتِ حدیث دی اور ان کا نام اپنے دور میں بہت شہرت اختیار کر گیا۔ علمی حلقوں میں ان کی عزت و توقیر تھی اور دور دراز کے علما و فضلاء ان سے خط کتابت کرتے تھے۔
انھوں نے حج ادا کیا، مقامات مقدسہ کی زیارت کی اور پھر مکہ مکرمہ میں سکونت اختیار کر لی۔ وہاں انھوں نے مسجد الحرام کے قریب ایک گھر میں قیام کیا جہاں سے وہ کعبہ شریف کو دیکھ سکتی تھیں۔ وہیں ان کے پاس مکہ کے اکابر علما آنے لگے، ان سے استفادہ کرتے اور انھیں علم منتقل کرتے۔ مکہ کے مشہور عالم، علامہ عمر عبد الرب الرسول حنفی اور علامہ محمد صالح رئیس شافعی ان کے خاص تلامذہ میں سے تھے۔ یہ دونوں علما ان سے علم حاصل کرنے میں سبقت لے جانے کی کوشش کرتے اور ان سے بے حد عقیدت رکھتے تھے۔
شیخة فضیلیہ کو تصوف میں بھی اعلیٰ مقام حاصل تھا۔ انھوں نے نقشبندی اور قادری سلاسل کی بیعت کی اور ان کے مخصوص اذکار و اوراد پر عمل پیرا رہیں۔ وہ لوگوں کی روحانی تربیت بھی کرتی تھیں، خاص طور پر خواتین ان کی صحبت سے بہت زیادہ فیض یاب ہوئیں۔ ان کے حلقۂ ارادت میں شامل خواتین میں دین، تقویٰ، ورع، فرائض کی پابندی، قناعت، صبر اور حسنِ سلوک جیسے اوصاف نمایاں نظر آتے تھے۔
یوں شیخة فضیلیہ علم، عبادت اور زہد و تصوف میں ایک مثالی شخصیت تھیں جنھوں نے اپنی زندگی علم کی اشاعت اور روحانی تربیت کے لیے وقف کر دی۔[4] ،[5][6] ،[7]
عبد الرزاق الصانع اور عبد العزیز عمر العلی نے اپنی کتاب إمارة الزبير بين هجرتين میں ذکر کیا:
شیخة فاطمہ الفضیلیہ نے کئی علمی کتب تصنیف و نقل کیں، جن میں شامل ہیں:
انھوں نے قرآن کریم بھی اپنے ہاتھ سے نقل کیا اور دیگر کئی کتابیں تحریر کیں۔،[12] [13] [14]
{{حوالہ کتاب}}
: الوسيط غير المعروف |صحہ=
تم تجاهله (معاونت)
{{حوالہ کتاب}}
: الوسيط غير المعروف |صحہ=
تم تجاهله (معاونت)
{{حوالہ کتاب}}
: الوسيط غير المعروف |صحہ=
تم تجاهله (معاونت)
{{حوالہ کتاب}}
: الوسيط غير المعروف |صحہ=
تم تجاهله (معاونت)
{{حوالہ کتاب}}
: الوسيط غير المعروف |صحہ=
تم تجاهله (معاونت)
{{حوالہ کتاب}}
: الوسيط غير المعروف |صحہ=
تم تجاهله (معاونت)
Towards the end of her life, she settled at Mecca
{{حوالہ ویب}}
: الوسيط |پہلا=
يفتقد |آخر=
(معاونت)
{{حوالہ کتاب}}
: الوسيط غير المعروف |صحہ=
تم تجاهله (معاونت)
{{حوالہ کتاب}}
: الوسيط غير المعروف |صحہ=
تم تجاهله (معاونت)
{{حوالہ رسالہ}}
: الاستشهاد بدورية محكمة يطلب |دورية محكمة=
(معاونت)، الوسيط |پہلا=
يفتقد |آخر=
(معاونت)، والوسيط غير المعروف |صحہ=
تم تجاهله (معاونت)