فصلی تقویم

فصلی تقویم یا فصلی عہد ایک تقویم ہے جو مغلیہ سلطنت میں مالگزاری کی وصول یابی کے لیے رائج تھی۔ اسے جلال الدین محمد اکبر نے اپنے دور حکومت میں مالگزاری کی وصولیابی اور دوسرے دفتری انتظامات کے لیے وضع کیا گیا تھا۔ فصلی تقویم کا سال گریگوری تقویم کے لحاظ سے جولائی سے شروع ہو کر جون تک بارہ ماہ کے دورانیے پر مشتمل ہوتا ہے۔ اگر فصلی تقویم میں پانسو نوے برس بڑھا دیے جائیں تو وہ عہد حاضر میں رائج گریگوری تقویم کے مساوی ہو جائے گی۔ مثلاً سنہ ١410 فصلی جولائی سنہ 2000ء سے جون 2001ء کے مساوی تھا۔[1]

تشکیل

[ترمیم]

فصلی تقویم کا سنہ تشکیل 963ھ خیال کیا جاتا ہے۔ بعد ازاں یہ تقویم شمسی یا سنوت تقویم کے مطابق آگے بڑھتی ہے۔ اس کے دن اور مہینوں کی تعداد اسلامی تقویم کے مطابق ہی رکھے گئے ہیں۔ فصلی تقویم کے سال کا آغاز 7 یا 8 جون سے ہوتا ہے۔[2] فصلی تقویم اکبر کی تخت نشینی کے سال سے شروع ہوا، اس لحاظ سے فصلی عہد کی دوسری رائج تقویموں سے مطابقت کی صورت حسب ذیل ہوگی[3]:

  • 263ھ (ہجری تقویم)
  • 1556ء (گریگوری تقویم)
  • 1612س (ہندو سونت تقویم)

تاریخ

[ترمیم]

لفظ فصلی عربی زبان کے لفظ فصل سے ماخوذ ہے جس کے معنی تقسیم کے ہیں۔[3] تاہم ہندوستان میں یہ لفظ موسم کے مترادف کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ تواریخی ترتیب کے اس نظام کو مغل شہنشاہ جلال الدین اکبر نے بنیادی طور پر مالگزاری اور محصولات کے ریکارڈ کے لیے بنایا تھا جو ابتدا میں شمالی ہندوستان میں رائج تھا۔ مسلمان حکومتوں میں رائج ہجری تقویم کی وجہ سے انتظامی ریکارڈ رکھنے میں خاصی دشواری کا سامنا ہوتا تھا کیونکہ اس تقویم کی بنیاد چاند کی رویت پر تھی۔ چنانچہ اس دشواری کو حل کرنے کے لیے اکبر نے متبادل تقویم رائج کی جو بیک وقت مسلمانوں کی قمری تقویم اور ہندوؤں کی شمسی تقویم کے ساتھ چلتی تھی۔[3]

اکبر نے فصلی تقویم کو ہجری اور سنوت تقویم کے مطابق کرنے کے لیے سنوت تقویم سے 649 برس لیے تاکہ فصلی سنہ 963 ہو سکے۔ اس کے بعد سے فصلی تقویم سنوت تقویم کے مطابق ہو گئی۔

دکن میں

[ترمیم]

اکبر کے پوتے شہنشاہ شاہ جہاں نے سنہ 1630ء میں صوبہ دکن (جنوبی ہند)[4] میں فصلی تقویم کو متعارف کرایا اور بعد ازاں یہی تقویم ریاست حیدرآباد کے آصف جاہی فرماں رواؤں کی دفتری تقویم رہی یہاں تک کہ آخری نظام دکن عثمان علی خان آصف جاہ سابع نے ریاست حیدرآباد کو بھارت ڈومینین میں ضم کر دیا۔[5]

مہینوں کے نام

[ترمیم]

فصلی تقویم کے مہینوں کے نام حسب ذیل ہیں۔ یہ نام جامعہ عثمانیہ کیلنڈر سے ماخوذ ہیں:[6]

فصلی مہینہ گریگوری مہینہ
شہریور جولائی
مہر اگست
آبان ستمبر
آذر اکتوبر
دی نومبر
بہمن دسمبر
اسفندر جنوری
فروردی فروری
اردیبہشت مارچ
خرداد اپریل
تیر مئی
امرداد جون

موجودہ صورت حال

[ترمیم]

ریاست حیدرآباد کے بھارت میں ضم ہو جانے کے بعد راج پرمکھ بنا جو تحلیل ہونے تک اپنے دفتری ریکارڈ اور منظوریوں میں فصلی تقویم کی پیروی کرتا تھا۔ اس وقت آندھرا پردیش اسٹیٹ وقف بورڈ اور نظام ٹرسٹ اپنے ریکارڈ کی ترتیب و تنظیم میں گریگوری اور ہجری تقویم کے ساتھ فصلی تقویم بھی استعمال کرتے ہیں۔[5] حکومت آندھرا پردیش، حکومت کرناٹک اور حکومت تمل ناڈو بھی اپنے تمام امور مالگزاری اور عدلیہ میں اسی فصلی تقویم کی پیروی کرتے ہیں۔[1][7]

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. ^ ا ب "LAND REVENUE" (PDF)۔ 24 مارچ 2012 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 اگست 2011 
  2. L.D.S. Pillai (1996)۔ Panchang and Horoscope: Or the Indian Calendar and Indian Astrology۔ صفحہ: 11۔ ISBN 81-206-0258-7۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 اگست 2011 
  3. ^ ا ب پ "Faṣlī era"۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 اگست 2011 
  4. Kavasji Sorabji Patel (1866)۔ Cowasjee Patell's Chronology۔ Trubner۔ صفحہ: 52۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 اگست 2011 
  5. ^ ا ب V. Ramakrishna Reddy۔ Economic history of Hyderabad State: Warangal Suba, 1911–1950۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 اگست 2011 
  6. جامعہ عثمانیہ کا کیلنڈر برائے 1348 تا 1351 فصلی سال
  7. "WHOLESALE PRICE TREND"۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 اگست 2011 

بیرونی روابط

[ترمیم]