قاضی اطہر مبارکپوری | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 1916ء [1][2][3] مبارکپور |
وفات | سنہ 1996ء (79–80 سال)[1][2][3] مبارکپور |
شہریت | بھارت (26 جنوری 1950–) برطانوی ہند (–14 اگست 1947) ڈومنین بھارت (15 اگست 1947–26 جنوری 1950) |
مذہب | اسلام |
عملی زندگی | |
پیشہ | مصنف |
درستی - ترمیم |
مورخ اسلام الحاج مولانا عبد الحفیظ صاحب قاضی اطہر مبارکپوری (پیدائش 4 رجب 1334ھ مطابق 7 مئی 1916ء - وفات 27 صفر 1417ھ مطابق 14 جولائی 1996ء), محلہ حیدرآباد قصبہ مبارکپور ضلع اعظم گڑھ میں بروز یکشنبہ صبح پانچ بجے پیدا ہوئے۔ آپ کے نانا مولانا احمد حسین رسولپوری نے عبد الحفیظ نام رکھا۔ مگر قاضی اطہر سے مشہور ہوئے۔ اطہر آپ کا تخلص ہے، جوانی میں کچھ دنوں خوب شاعری کی، برجستہ اشعار کہتے تھے، پھر شاعری چھوڑ دی۔ قاضی اس لیے کہے جاتے ہیں کہ آپ کے خاندان میں ایک عرصہ تک نیابت قضا کا عہد قائم رہا۔[4]
آپ کے ہاں ابتدا میں بہت تنگی تھی۔ گذر اوقات بہت مشکل تھی۔ اس لیے زمانۂ طالب علمی میں ہی جلد سازی کا کام کرنے لگے۔ جلد سازی کے لوازمات اعظم گڑھ جا کر لاتے تھے۔ وہ بھی پیدل، اس میں کئی گھنٹے صرف ہوتے تھے۔ لیکن اس کی وجہ سے انھوں نے تعلیم ترک نہ کی۔ کتابوں سے بہت محبت تھی۔ اس لیے پیسہ پیسہ جمع کرتے۔ جب اتنے پیسے جمع ہو جاتے کہ کوئی کتاب خرید لی جائے تو کتاب خرید لیتے۔ زندگی کا بڑا حصہ تنگی و ترشی میں گذرا۔ لیکن اخیر عمر میں اللہ تعالیٰ نے آپ پر رزق کے دروازے کشادہ کر دیے۔ حتیٰ کہ آپ کا شمار مبارکپور کے امرا میں ہونے لگا۔ بچپن سے ہی آنکھیں کمزور تھیں۔ لیکن ضعفِ بصارت کی وجہ سے کثرتِ مطالعہ سے نہیں رکے۔ اور نہ ہی اس چیز نے کثرت تصنیف و تالیف سے روکا۔ آپ سادہ طبیعت، مہمانوں کی خوب خاطر داری کرنے والے، پاکی صفائی کو پسند کرنے والے تھے۔ اپنے شہر مبارکپور میں ایک ادارہ ’’دائرہ حلبیہ‘‘ کے نام سے قائم کیا۔[5]
پاکستانی علما کے پاس آپ کی شخصیت اور تحقیقات کی بڑی قدر و منزلت ہے۔ اسلامی تہذیب و تاریخ پر آپ کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ’’محسنِ ہند‘‘ کا لقب دیا، پاکستان میں منعقد ہونے والے علمی سیمناروں میں آپ کو مدعو کیا جاتا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ کی بعض کتب کو عالم عربی میں مصدر و مرجع ہونے کا شرف حاصل ہے۔ قاضی صاحب کو علم حاصل کرنے کی بہت تڑپ تھی۔ مطالعۂ کتب کا بڑا گہرا شغف تھا۔ جس کی وجہ سے امہات الکتب اور دوسری کتابوں کا اتنا بڑا ذخیرہ جمع ہو چکا تھا گویا بہت بڑا کتب خانہ ہو۔ مطبوعات و مخطوطات کی اتنی کثرت ہو گئی تھی گھر تنگ دانی کا شکوہ کرنے لگا۔ اس کتب خانے کا فیض تھا کہ آپ نے بڑی معیاری اور خوبصورت کتابیں علمی دنیا کے سامنے پیش کیں۔[6]
نعمت اللہ مبارکپوری (م: 1362ھ) آپ کے پاس فارسی، خط نسخ و خط نستعلیق سیکھی۔ مفتی محمد یاسین مبارکپوری (م:1404ھ) جن کے پاس بہت سی عربی کی کتابیں پڑھیں۔ شکر اللہ مبارکپوری (م: 1361ھ) کے پاس کتب منطق وفلسفہ پڑھی۔ بشیر احمد مبارکپوری (م: 1404ھ) کے پاس بعض کتب منطق پڑھی ہیں۔ محمد عمر مبارکپوری (1415ھ) کے پاس تفسیر جلالین اور دوسری کتابیں پڑھیں۔ محمد یحییٰ رسولپوری (1387ھ) کے پاس علم عروض، علم قوافی اور علم ہیئت حاصل کیا۔ جو آپ کے ماموں تھے۔[7]
آپ نے طالب علمی کے زمانے سے شعر گوئی شروع کر دی تھی اور یہ اشعار ’’فرقان‘‘ بریلی(1357ھ)، ’’قائد‘‘ مرادآباد (1357ھ) اور لاہور کے کے رسائل جیسے زمزم، کوثر اور مسلمان میں چھپنے لگے۔ ان اشعار سے آپ کی شہرت علمی حلقوں تک پہنچ گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ 225 اشعار پر مشتمل ایک قصیدہ لکھا جو اصحاب صفہ کے متعلق تھا۔ اس کے بعد تصنیف و تالیف اور صحافت کے میدان میں ایسا اترے کہ شاعری ترک کر دی۔[8]
14 جولائی 1996 بعد نماز فجر اپنے بچوں سے کہا کہ میں نے یہ علمی خزانہ بڑی محنت اور مشقت سے جمع کیا ہےـ اگر اس کی حفاظت نہ کر سکو تو یہ دار العلوم دیوبند یا علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے حوالے کردینا تاکہ اس سے استفادۂ عام کا دروزہ کھلا رہے۔ 14 جولائی 1996 کو ہی یہ علم و فضل کا آفتاب 80 سال کی عمر پاکر دنیائے فانی سے دارِ بقاء کی طرف کوچ کرگیاـ۔ نماز جنازہ مہتمم دار العلوم دیوبند مولانا ابو القاسم نعمانی نے پڑھائی۔[9]