قلعہ پنہالا | |
---|---|
پنہالا، مہاراشٹر | |
تین دروازہ کا داخلی دروازہ 1894ء، قلعہ پنہالا | |
مہاراشٹر میں دیکھیں | |
متناسقات | 16°48′32″N 74°06′33″E / 16.80889°N 74.10917°E |
قسم | پہاڑی قلعہ |
بلندی | 845 میٹر (2,772 فٹ) ASL |
مقام کی معلومات | |
عوام کے لیے داخلہ | ہاں |
مقام کی تاریخ | |
تعمیر | 1178ء، 1489ء (بڑی توسیع) |
تعمیر بدست | بھوج دوم، Adil Shah |
مواد | پتھر، سیسہ |
لڑائیاں/جنگیں | معرکہ پاون کھنڈ |
گیریزن کی معلومات | |
قابضین | سمبھاجی، رام چندر نیل کنٹھ باوڑیکر |
قلعہ پنہالا (جسے پنہال گڑھ بھی کہا جاتا ہے؛ پنہال کے معنی سانپ کے ہوتے ہیں) صوبہ مہاراشٹر کے شہر کولہاپور سے بیس کلومیٹر دور شمال مغرب میں واقع پنہالا شہر میں موجود ہے۔ فوجی نقطہ نظر سے اس قلعہ کا محل وقوع خاصا اہمیت کا حامل رہا ہے۔ کیونکہ یہ اس گزرگاہ پر واقع ہے جو سہیادری سلسلہ کوہ سے ہو کر گزرتا ہے۔ مہاراشٹر کے داخلی علاقے میں بیجاپور سے ساحلی خطوں تک پھیلا یہ راستہ اہم ترین تجارتی گزرگاہ تھا۔[1]
محل وقوع کی اسی اہمیت کی بنا پر اس قلعے کی دیواروں نے کئی جنگیں دیکھی ہیں جن میں مرہٹے، مغل، برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی جیسی طاقتیں شامل تھیں۔ ان میں سب سے مشہور اور قابل ذکر معرکہ پاون کھنڈ تھا۔ ریاست کولہاپور کی نائب السطنت ملکہ تارابائی نے اپنے ابتدائی ایام اسی قلعے میں گزارے ہیں۔ قلعہ کی کئی عمارتیں اور متعدد حصے اب بھی مکمل محفوظ ہیں۔
قلعہ پنہالا 1178ء سے 1209ء کے درمیانی عرصے میں تعمیر ہوا۔ اس قلعے کا بانی شلہار فرماں روا بھوج دوم تھا جس نے قلعہ پنہالا کے ساتھ مزید چودہ قلعے (باوڑا، بھدرگڑ، ستارا اور وشال گڑھ وغیرہ) تعمیر کروائے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ کہاں راجا بھوج، کہاں گنگو تیلی کی مشہور ضرب المثل اسی قلعے سے متعلق ہے۔ ستارا شہر سے ایک تختی دستیاب ہوئی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ راجا بھوج نے 1191ء سے 1192ء تک پنہالا میں قیام کیا تھا۔ سنہ 1209 یا 1210ء کے آس پاس راجا بھوج کو دیوگیری یادو کے سب سے طاقت ور فرماں روا سنگھانا کے ہاتھوں شکست ہوئی جس کے بعد یہ قلعہ یادو خاندان کے قبضے میں چلا گیا۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یادو کے تسلط میں جانے کے بعد اس قلعے کی مناسب دیکھ بھال نہیں ہوئی اور یہ متعدد مقامی سرداروں کی تحویل میں بھی رہا۔ سنہ 1376ء کے آثار بتاتے ہیں کہ قلعہ کے جنوب مشرق میں نبھاپور نامی آبادی بستی تھی۔[2]
بہمنی سلطنت کے عہد میں یہ قلعہ بیدر کے بہمنیوں کی ایک فوجی چھاؤنی بن گیا تھا، چنانچہ سنہ 1469ء کے موسم باراں میں وزیر اعظم محمود گوان نے یہاں پڑاؤ کیا۔ سنہ 1489ء ميں عادل شاہی سلطنت کے قیام کے بعد یہ قلعہ بیجاپور کے ماتحت ہو گیا، اس دوران میں اس کی مرمت کی گئی اور اسے مزید مضبوط کیا گیا۔ سلطنت بیجاپور نے قلعہ کی مضبوط فصیلیں اور دیو ہیکل دروازے تعمیر کروائے جو اس وقت کی روایت کے بموجب سینکڑوں برس میں مکمل ہوا۔ قلعہ میں موجود متعدد آثار ابراہیم عادل شاہ کا پتا دیتے ہیں، اس ابراہیم سے مراد غالباً ابراہیم اول (1534ء – 1557ء) ہے۔[3]