لبنان میں خواتین (انگریزی: Women in Lebanon) عرب دنیا کے مقابلے کئی معاملات میں مختلف اور ترقی یافتہ موقف رکھتی ہیں۔ ملک وہ آزادانہ طور کپڑے پہن سکتی ہیں اور اپنے ملک میں بے روک ٹوک گھوم پھر سکتی ہیں۔ یہاں کی خواتین تقریبًا مرد کے مساوی سبھی شہری اور سیاسی حقوق رکھتی ہیں۔ تاہم کئی سرکاری طور پر تسلیم شدہ مذاہب کی موجودگی کی وجہ سے لبنان کے عائلی امور کم از کم پندرہ عائلی ضابطوں کے تابع ہیں۔[1] لبنان کی خواتین کا سیاسی تحفظ ان کے مذہب کے تابع ہے۔[2] مسلمان خاندانوں میں شادی کی عمر سن بلوغ کو پہنچنے کے ساتھ ہی تسلیم کی جا سکتی ہیں اور تعدد ازواج قانونًا درست ہے۔ بین العقیدہ شادی بھی ممکن ہے، مثال کے طور پر مسلمان عورتیں مسیحی یا یہودی مردوں سے تبدیل مذہب یا اولاد کے مرد کے مذہب اختیار کرنے کی شرط کے ساتھ شادی کر سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ زوجین بیرون ملک سیول شادی کر سکتے ہیں، جس کا کسی بھی لبنانی سفارت خانے میں اندراج ممکن ہو سکتا ہے۔ یہ ایک مقبول پسندیدہ اختیار کردہ موقف ہے، جس میں قبرص ایک پسندیدہ ملک ثابت ہوا ہے۔[3] تاہم کسی لبنانی خاتون کو کسی غیر ملکی مرد سے پیدا ہونے والے بچے کو لبنانی شہریت عطا نہیں کی جاتی ہے۔[4]
بنان بھر میں 2019ء کے کئی ہفتوں تک حکومت مخالف مظاہرے جاری ہو چکے ہیں اور عوامی مارچ، بحث مباحثوں، دھرنوں اور سڑکیں بند کرنے کے عمل میں خواتین بنیادی کردار ادا کر چکی ہیں۔ یعنی ایک ایسا ملک جس میں خواتین کی نمائندگی بے حد کم ہے، وہ سڑکوں پر نکل کر اپنی آواز بلند کر چکی ہیں۔ احتجاج میں لوگوں کے مطابق ’خواتین اس انقلاب کا اہم حصہ ہیں۔ ہم اگلی صفوں میں ہیں۔ ہم ایک دوسرے کو بااختیار بنا رہی ہیں اور ہم نے امن برقرار رکھا ہوا ہے۔‘[5]
لبنان میں سیاسی محاذ پر خواتین کافی فعال ہیں۔ جنوری 2020ء میں وزیر اعظم حسان دیاب کی زیر قیادت 20 رکنی کابینہ میں 6 خواتین کو بھی شامل کیا گیا ہے۔[6]
No. 203, Lebanon and Syria: The Geopolitics of Change