محمد تقی امینی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 5 مئی 1926ء صُبَیحہ، بارہ بنکی، برطانوی ہند کے متحدہ صوبے |
وفات | 21 جنوری 1991 علی گڑھ، اتر پردیش، بھارت |
(عمر 64 سال)
شہریت | بھارت (26 جنوری 1950–) ڈومنین بھارت |
عملی زندگی | |
مادر علمی | مدرسہ امینیہ |
استاذ | کفایت اللہ دہلوی |
پیشہ | مصنف ، عالم ، مفتی |
پیشہ ورانہ زبان | اردو ، عربی |
کارہائے نمایاں | فقہِ اسلام کا تاریخی پسِ منظر، حدیث کا درایتی معیار |
باب ادب | |
درستی - ترمیم |
محمد تقی امینی ( 5 مئی 1926ء – 21 جنوری 1991ء) بھارتی سنی عالم، فقیہ، اردو زبان کے مصنف اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے کلیہ دینیات کے ڈین تھے۔[3][4] وہ فقہ پر اپنے کاموں کے لیے جانے جاتے ہیں اور ان کی کتاب ’’فقہِ اسلامی کا تاریخی پسِ منظر‘‘ اسلامیات میں اسلامک یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں ماسٹر ڈگری کے لیے ضروری مطالعہ ہے۔[5]
امینی 1926ء میں بارہ بنکی میں پیدا ہوئے تھے، ان کی تعلیم جامع العلوم، کانپور اور مدرسہ امینیہ، دہلی سے ہوئی تھی۔ اپنے کیریئر کے دور میں وہ دار العلوم ندوۃ العلماء کے استاذ رہے اور اجمیر میں دار العلوم معینیہ میں معتمَدِ اعلی کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے کلیہ دینیات کے ڈین بنائے گئے تھے اور 1986ء میں وہ اس منصب سے سبکدوش ہو گئے۔ وہ ’’ری کنسٹرکشن آف کلچر اینڈ اسلام‘‘، ’’اجتہاد کا تاریخی پسِ منظر‘‘ اور ’’احکامِ شرعیہ میں حالات و زمانہ کی رعایت‘‘ سمیت کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ ان کا انتقال 1991ء میں علی گڑھ میں ہوا۔
محمد تقی امینی 5 مئی 1926ء کو برطانوی ہند کے متحدہ صوبے (موجودہ اتر پردیش) میں بارہ بنکی کے ایک گاؤں صُبَیحہ میں پیدا ہوئے تھے۔[6][7] انھوں نے اپنی ابتدائی تعلیم مقامی مدرسوں میں حاصل کی اور پھر جامع العلوم کانپور چلے گئے۔ انھوں نے درس نظامی کی تعلیم کفایت اللہ دہلوی کے تحت دہلی میں مدرسہ امینیہ میں مکمل کی۔[6]
امینی نے مدرسہ سبحانیہ دہلی، دار العلوم ندوۃ العلماء اور جامع العلوم کانپور میں تعلیم شروع کی۔[8] وہ 1950ء میں ناگپور چلے گئے، جہاں انھوں نے تقریبا 6 سال مدرسہ ثانیہ اور ہائی اسکول میں پڑھایا اور پھر 1956ء میں دار العلوم معینیہ میں پڑھانے کے لیے اجمیر منتقل ہو گئے، جہاں وہ صدر مدرس اور شیخ الحدیث بن گئے۔ دار العلوم معینیہ میں ان کا کیریئر تقریباً سات سال تک جاری رہا اور انھوں نے بنیادی طور پر علم حدیث پڑھایا۔[8] سعید احمد اکبر آبادی کی درخواست پر امینی نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) میں 1964ء میں شعبہ سنی دینیات میں لیکچرر کی حیثیت سے شمولیت اختیار کی۔[8] وہ پروفیسر اور ناظم سنی دینیات، پھر کلیہ دینیات، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ڈین بنادیے گئے اور 1986ء تک اے ایم یو میں رہے۔ تاہم اے ایم یو کے وائس چانسلر سید ہاشم علی نے ان کے عہدہ کو 1989ء تک بڑھا دیا۔[9] امینی؛ ابو الحسن علی ندوی کی قائم کردہ ایک فقہی کونسل مجلس تحقیقاتِ شرعیہ کے رکن تھے۔[9] امینی کا انتقال 21 جنوری 1991ء کو علی گڑھ میں ہوا۔[6]
اے ایم یو میں جاوید احسن فلاحی نے امینی کی حیات و خدمات پر ’’مولانا محمد تقی امینی: لائف اینڈ کنٹربیوشنز‘‘ کے عنوان سے ڈاکٹریٹ کا ایک مقالہ لکھا۔[8]
ایس اے رحمان اپنی کتاب "پنشمنٹ آف اپوزٹیسی اِن اسلام" ("اسلام میں ارتداد کی سزا") میں محمد تقی امینی کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’حدود کا دائرہ؛ صرف قرآنی نسخوں تک محدود ہونا چاہیے اور دیگر تمام سزاؤں کو درجہ تعزیر کے زمرے میں ہونا چاہیے۔ ایسے جرائم ہوسکتے ہیں جن کے لیے اسلام کے پہلے چار خلفا کے زمانہ میں سزائیں مقرر کی گئی تھیں اور جن کے لیے حتمی دعوٰی پچھلے اتفاق رائے کی بنیاد پر کیا جا سکتا ہے۔ لیکن بروقت حالات واضح نصوص کے مطابق ان کی نظر ثانی کا جواز پیش کریں گے۔‘‘[10]
محمد تقی امینی کی کتابوں میں یہ بھی شامل ہیں:[11][12]