فضیلۃ الشیخ | |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
محمد رفیع عثمانی | |||||||
رئیس الجامعہ ثالث دار العلوم کراچی | |||||||
مدت منصب 1986ء تا 18 نومبر 2022ء | |||||||
| |||||||
وفاق المدارس العربیہ کے نائب صدر | |||||||
مدت منصب 5 اکتوبر 2017ء تا 16 جون 2021 | |||||||
معلومات شخصیت | |||||||
پیدائش | 21 جولائی 1936ء دیوبند |
||||||
وفات | 18 نومبر 2022ء (86 سال) کراچی |
||||||
شہریت | برطانوی ہند (1936–1947) ڈومنین بھارت (1947–1948) پاکستان (1948–2022) |
||||||
اولاد | محمد زبیر عثمانی | ||||||
والد | محمد شفیع عثمانی | ||||||
بہن/بھائی | |||||||
خاندان | دیوبند کا خانوادۂ عثمانی | ||||||
عملی زندگی | |||||||
مادر علمی | دار العلوم دیوبند دارالعلوم کراچی جامعہ پنجاب |
||||||
استاذ | عبد الحئی عارفی ، ولی حسن ٹونکی ، رشید احمد لدھیانوی ، سلیم اللہ خان | ||||||
پیشہ | مفسرِ قانون ، مصنف ، عالم ، مفتی | ||||||
مادری زبان | اردو | ||||||
پیشہ ورانہ زبان | اردو ، عربی | ||||||
تحریک | دیوبندی | ||||||
درستی - ترمیم |
محمد رفیع عثمانی (1936–2022ء) ایک پاکستانی مسلمان عالم، فقیہ اور مصنف تھے، جنھوں نے دار العلوم کراچی کے صدر کے طور پر خدمات انجام دیں۔ وہ دارالعلوم دیوبند، جامعہ پنجاب اور دار العلوم کراچی کے فاضل تھے۔ احکامِ زکوٰۃ، التعلیقات النافعۃ علی فتح الملہم، اسلام میں عورت کی حکمرانی اور نوادر الفقہ جیسی کتابیں ان کی تصانیف میں شامل ہیں۔ وہ جامعہ کراچی کے سنڈیکیٹ ممبر اور وفاق المدارس العربیہ کی مجلس انتظامیہ کے رکن اور نائب صدر تھے۔ وہ محمد تقی عثمانی کے بڑے بھائی تھے۔
محمد رفیع عثمانی 21 جولائی 1936ء کو برطانوی ہند کے قصبۂ دیوبند کے خانوادۂ عثمانی میں پیدا ہوئے۔[2] ان کا نام محمد رفیع اشرف علی تھانوی نے رکھا تھا۔[3] عثمانی کے والد محمد شفیع دیوبندی دار العلوم دیوبند کے مفتی اعظم اور تحریک پاکستان کی سرخیل شخصیات میں سے ایک تھے۔[4] وہ محمد تقی عثمانی کے بڑے بھائی تھے۔[5]
عثمانی نے نصف قرآن؛ دار العلوم دیوبند میں حفظ کیا اور یکم مئی 1948ء کو ہجرت کر کے پاکستان آگئے۔[6] ان کے حفظ قرآن کی تکمیل؛ مسجد باب الاسلام، آرام باغ میں ہوئی اور آخری سبق فلسطینی مفتی اعظم امین الحسینی نے پڑھایا تھا۔[7] 1951ء میں دار العلوم کراچی میں ان کا داخلہ ہوا اور 1960ء میں انھوں نے "درس نظامی" میں سند فضیلت حاصل کی۔[7] 1378ھ میں، انھوں نے جامعہ پنجاب سے "مولوی" اور "منشی" (جسے "مولوی فاضل" بھی کہا جاتا ہے[7]) کے امتحانات پاس کیے۔[6][7] انھوں نے 1960ء میں دار العلوم کراچی سے تخصص فی الافتاء کی سند حاصل کی۔[6]
عثمانی نے صحیح بخاری رشید احمد لدھیانوی سے، صحیح مسلم اکبر علی سہارنپوری سے، موطأ امام محمد اور سنن نسائی سحبان محمود سے، سنن ابو داؤد رعایت اللہ سے اور جامع ترمذی سلیم اللہ خان سے پڑھی۔[8] انھوں نے محمد حقیق سے سنن ابن ماجہ کے بعض حصے پڑھے اور تکمیل رعایت اللہ نے کروائی۔[8] انھیں حسن بن محمد المشاط، محمد ادریس کاندھلوی، محمد شفیع دیوبندی، محمد طیب قاسمی، محمد زکریا کاندھلوی اور ظفر احمد عثمانی سے اجازتِ حدیث حاصل تھی۔[9]
عثمانی پاکستان علماء کونسل، اسلامی نظریاتی کونسل، رویت ہلال کمیٹی اور حکومت سندھ کی زکوٰۃ کونسل کے رکن تھے۔[10] وہ شرعی عدالتی بنچ، عدالت عظمیٰ پاکستان کے مشیر اور این ای ڈی یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی اور جامعہ کراچی کے سنڈیکیٹ رکن تھے۔[10] انھوں نے وفاق المدارس العربیہ کی مجلسِ منتظمہ و مجلسِ ممتحنہ کے رکن کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں[11] اور بعد میں اس کے سرپرست بنائے گئے۔[12] انھوں نے 5 اکتوبر 2017ء تا 16 جون 2021ء وفاق المدارس کے نائب صدر کے طور پر خدمات انجام دیں۔[13][14] 1986ء میں عبد الحئی عارفی کی وفات کے بعد، عثمانی ان کے جانشین ہوئے اور دار العلوم کراچی کے تیسرے صدر بنائے گئے۔[15][16]
دار العلوم کراچی میں عثمانی نے 1380ھ سے 1390ھ تک درس نظامی سے متعلق تمام کتابیں پڑھائیں۔ 1391ھ سے انھوں نے مدرسہ میں حدیث اور افتاء کی کتابیں پڑھائیں۔[17] انھوں نے دار العلوم کراچی میں صحیح مسلم کا درس بھی دیا اور طلبۂ افتاء کی تربیت بھی فرمائی۔[6] 1980ء کی دہائی کے آخر میں، عثمانی نے سوویت کے خلاف جہاد میں جماعت حرکت الجہاد الاسلامی (ایچ یو جے آئی) میں حصہ لیا۔[18] انھوں نے ہمیشہ طلبہ کو سیاست سے دور رہنے کو کہا۔[19] ان کے تلامذہ میں محمد ابن آدم الکوثری شامل ہیں۔[20]
عثمانی نے عربی اور اردو میں تقریباً 27 کتابیں تصنیف کیں۔[21] 1988ء تا 1991ء انھوں نے ایچ یو جے آئی سے متعلق اپنی یادوں کو دار العلوم کراچی کے اردو ماہنامہ البلاغ کے علاوہ اردو روزنامہ جنگ اور ماہنامہ الارشاد میں شائع کروایا، بعد میں وہ یادیں ’’یہ تیرے پر اسرار بندے‘‘ کے عنوان سے مستقل کتابی شکل میں بھی شائع ہوئیں۔[22] عنایت احمد کاکوروی کے علم الصیغہ کا اردو ترجمہ و شرح بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش، برطانیہ، جنوبی افریقہ کے بہت سے مدارس میں درس نظامی کے نصاب میں داخل ہے۔[21] ان کی بعض تصانیف کے نام مندرجۂ ذیل ہیں:[21]
عثمانی کو ان کی علمی خدمات کے لیے ایک متفقہ رائے کے ذریعے مفتی اعظم کا خطاب دیا گیا۔[23] ڈان کے مطابق، انھیں 1995ء میں دیوبندی مکتب فکر کے نمائندہ علما نے مفتی اعظم کا لقب دیا تھا۔[24] وہ ایک عالم، فقیہ، محدث، محقق اور مصنف، ایک بہترین منتظم اور ایک کامیاب استاد اور لیکچرر کے طور پر معروف تھے۔[25]
عثمانی کووڈ-19 کی پیچیدگیوں سے بچنے کے بعد صحت کے کئی مسائل کا شکار تھے اور ان مشکلات کا علاج کیا جا رہا تھا۔[26][1] وہ طویل علالت کے بعد کراچی میں 18 نومبر 2022ء کو 86 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔[26][27][28] عارف علوی اور شہباز شریف نے ان کے انتقال پر افسوس کا اظہار کیا۔[29] مریم اورنگزیب نے عثمانی کی وفات کو ناقابل تلافی نقصان قرار دیا اور گورنر سندھ، کامران ٹیسوری نے اسے عالم اسلام کے لیے عظیم نقصان قرار دیا۔ سید مراد علی شاہ نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مفتی صاحب کی وفات عالم اسلام کے لیے ایک عظیم سانحہ ہے، ان کی دینی خدمات لازوال ہیں۔[29] نواز شریف نے اظہار تعزیت کرتے ہوئے کہا کہ مفتی رفیع عثمانی صاحب کی وفات پر دل بہت رنجیدہ ہے۔[30] ان کے شاگرد محمد ابن آدم الکوثری نے کہا کہ ان کے پاس اظہار افسوس کرنے کے لیے الفاظ نہیں ہیں۔ سابق وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے بھی تعزیت کرتے ہوئے کہا کہ انھیں ان کے انمول خدمات کے لیے یاد رکھا جائے گا۔[20]
عثمانی کی نماز جنازہ 20 نومبر 2022ء کو ان کے بھائی محمد تقی عثمانی نے پڑھائی اور اس میں انیس قائم خانی، انوار الحق حقانی، فضل الرحمن، حافظ نعیم الرحمن، کامران ٹیسوری، محمد حنیف جالندھری اور سید مصطفیٰ کمال نے شرکت کی۔[24][16][31] انھیں دار العلوم کراچی کے قبرستان میں ان کے والد کی قبر کے برابر میں سپرد خاک کیا گیا۔[24][32]
{{حوالہ خبر}}
: تحقق من التاريخ في: |date=
(معاونت)
ویکی اقتباس میں محمد رفیع عثمانی سے متعلق اقتباسات موجود ہیں۔ |