(عربی: محمد سرور بن نايف زين العابدين) (پیدائش 1938ء) تنظیم اخوان المسلمین مصر کے سرکردہ ارکان میں سے ہیں۔ وہ سلفی اسلامی طریقہ کے ہیں جو اخوان المسلمین کے انتظامی طریقہ کار اور سیاسی نقطۂ نظر کو تصوف کے تقویٰ کے نظریہ سے ملاتا ہے۔ ان کے اس نقطۂ نظر کی وضاحت "سعودی عرب میں وہابیت کے سیاسی نسخہ کی ترویج کا ذریعہ" کے طور پر کی جا سکتی ہے۔ تاہم جہاں وہ مسلمان حکمرانوں کی غیر متشدد تنقید کی حمایت کرتے ہیں، وہیں وہ مسلمان ممالک کے طرز حکومت کو عوامی تصادم اور بد نظمی کے ذریعے اکھاڑ پھینکنے کے فتنہ کے بھی مخالف ہیں۔ سرور کی مشہور کتاب بنام عربی: و جاء دور المجوس جو 1984ء میں شائع ہوئی اہل تشیع کی مخالفت میں لکھی گئی ہے۔ اس کتاب میں انھوں نے لکھا ہے کہ ایرانی انقلاب مشرق وسطیٰ میں شیعی اقتدار کے نقطۂ آغاز کی حکمت عملی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ ابو مصعب الزرقاوی نے اس کتاب سے حوالہ جات کثرت سے نقل کیے ہیں۔
سرور حوران میں پیدا ہوئے۔ 1960ء میں اخوان المسلمین المصریہ کی رکنیت کے دوران انھوں نے تنظیم کے مختلف امور مثلاً اخوان کے صوفی ارکان پر تنقید شروع کر دی۔ 1965ء میں سعودی عرب میں ہجرت کر کے رہائش اختیار کرنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی۔ 1974ء میں غیر تعمیری سرگرمیوں کی مخبری کے باعث سعودی عرب سے انخلا کے بعد وہ کویت میں مقیم ہوئے جہاں انھوں نے دار ارقم کے نام سے ایک اشاعتی ادارہ قائم کیا۔ 2004ء میں اردن جانے سے قبل وہ 1984ء میں ہجرت کر کے برطانیہ گئے اور وہاں مرکز تعلیمات اسلامی کی بنیاد رکھی۔
آل الشیخ محمد ابن ابراہیم سے سرور بہت متاثر ہیں۔ اوائل میں ابو محمد المقدسی بھی محمد سرور سے بہت متاثر تھے؛جن کا بعد میں سرور کے بارے میں یہ خیال ہے کہ انکا رویہ مسلمان حکمرانوں کے بارے میں لچکدار تھا۔ سرور نے سفر الحوالی اور سلمان العودہ کو بھی متاثر کیا۔