مولانا حافظ محمد شفیع اوکاڑوی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | (2 رمضان المبارک 1348ء) فروری 2، 1929ء کھیم کرن ، مشرقی پنجاب |
تاریخ وفات | اپریل 24، 1984ء |
قومیت | پاکستانی |
اولاد | کوکب نورانی اوکاڑوی |
والدین | ۔حاجی شیخ کرم الہی بن شیخ اللہ دتا بن شیخ امام الدین جو پنجاب کی معزز شیخ تاجر برادری سے تعلق رکھتے تھے ۔ |
عملی زندگی | |
تعليم | اسکول میں مڈل تک اور دِینی تعلیم ، درس نظامی مکمل و دورۂ حدیث و تفسیر |
پیشہ | مذہبی اسکالر |
وجہ شہرت | علم دین |
درستی - ترمیم |
حافظ محمد شفیع اوکاڑوی اہلسنت وجماعت کے ممتاز عالم دین اور سیاستدان تھے جنھوں نے تبلیغ اسلام کے سلسلہ میں متعدد ممالک کا سفر اختیار کیا اور متعدد دینی کتابیں لکھیں۔ موصوف مرکزی جماعت اہل سنت کے بانی تھے۔
محمد شفیع اوکاڑوی کی ولادت 1929ء میں ہوئی
شیخ المشائخ پیر میاں غلام اللہ شرقپوری المعروف ثانی صاحب قبلہ برادر خورد شیرِ ربّانی اعلیٰ حضرت میاں شیر محمد شرقپوری ( سلسلۂ عالیہ نقشبندیہ مجددیہ )- میاں شیر محمد شرقپوری نے حاجی میاں کرم الہٰی کومولانا حافظ محمد شفیع اوکاڑوی کی ولادت سے قبل ہی ان کے فضل و کمال کی بشارت دے دی تھی آپ کے والدین نے بھی آپ کی ولادت سے قبل مبارک خواب دیکھے اور بیان کیے۔بعد ازاں گنجِ کرم حضرت سید محمد اسماعیل شاہ بخاری المعروف حضرت کرماں والا شریف سے نسبت قائم رہی
اپنے پیرو مرشد حضرت ثانی صاحب شرقپوری اور علمائے اہل سنّت کے ساتھ علمی طلب کے ابتدائی زمانے میں تحریک پاکستان میں بھرپورحصّہ لیا اور تقسیم ہند تک سرگرم عمل رہے۔ 1947ء میں ہجرت کرکے اوکاڑہ آ گئے اور جامعہ حنفیہ اشرف المدارس قائم کیا جس کے بانیان اور سرپرستوں میں سے تھے۔ دار العلوم اشرف المدارس، اوکاڑہ کے شیخ الحدیث و التفسیر شیخ القرآن مولانا غلام علی اشرفی اوکاڑوی اور مدرسہ عربیہ اسلامیہ انوارالعلوم ملتان کے شیخ الحدیث والتفسیر غزالی دَوراں سید احمد سعید کاظمی سے تمام متدادل دِینی علوم پڑھے اور درسِ نظامی و دورۂ حدیث کی تکمیل پر اسناد حاصل کیں۔ جامع مسجد مہاجرین منٹگمری ( ساہیوال ) میں نماز جمعہ کی خطابت شروع کی اور بِرلا ہائی اسکول اوکاڑہ میں شعبۂ دینیات کے سربراہ رہے۔ یاد رہے کہ شیخ القرآن مولانا غلام علی اوکاڑوی [[غلام علی اوکاڑوی]] پہلے سیالکوٹ میں موجود تھے بعد ازاں اوکاڑہ تشریف لائے اور اشرف المدارس تعمیر ہوا، اس وقت حضرت شیخ القرآن کے ساتھ ان کے پروردہ تربیت شاگرد حضرت مولانا شفیع اوکاڑوی اور حضرت پیر محمد عنایت احمد نقشبندی گنجِ عنایت سرکار [[لاہور]] و کچھ دیگر شاگرد موجود تھے۔۔حضرت مولانا [[شفیع اوکاڑوی]] اور مولانا محمد عنایت احمد نقشبندی شیخ القرآن مولانا [[غلام علی اوکاڑوی]] کے پہلے شاگردوں میں سے ہیں۔۔۔۔۔
شیخ القرآن مولانا غلام علی اوکاڑوی کا مزار مبارک [[اشرف المدارس]] اوکاڑہ میں
خطیب پاکستان حضرت مولانا شفیع اوکاڑوی رحمۃ اللّٰہ علیہ کا مزار مبارک کراچی اور استاز بھائی حضرت علامہ پیر محمد عنایت احمد نقشبندی المعروف حضور گنج عنایت سرکار کا مزار لاہور گلبرگ 3 کے علاقے کبوتر پورہ میں واقع ہے۔۔۔
ان بزرگوں کا فیض وصال کے بعد بھی جاری و ساری ہے
53۔1952ء میں تحریک ختمِ نبوت میں محض سید عالم ختمی مرتبت حضور ﷺ کی عزت و ناموس کے لیے بھرپور حصّہ لیا۔ ضلع منٹگمری( ساہیوال ) اور پنجاب کی سرکردہ شخصیت تھے، حکومت نے قید کر دیا۔ دس ماہ منٹگمری جیل میں رہے۔ اسیری کے ان ایّام میں مولانا حافظ محمد شفیع اوکاڑوی کے دو فرزند تنویر احمد اور منیر احمد جن کی عمر بالترتیب تین سال اور ایک سال تھی، انتقال کر گئے۔ یہ دونوں مولانا حافظ محمد شفیع اوکاڑوی کے پہلے فرزند تھے۔ ان کی وفات کے سبب گھریلو حالت پر یشان کُن تھے۔ کچھ با اثر لوگوں نے ڈپٹی کمشنر ساہیوال سے مل کر سفارش کی۔ ڈپٹی کمشنر نے جیل کا دَورہ کِیا۔ گرفتار شُدگان سے ملاقات کی اور مولانا حافظ محمد شفیع اوکاڑوی کو بالخصوص الگ بُلاکر کہا ’’ بچوں کی وفات کی وجہ سے آپ کے گھر کے حالات ٹھیک نہیں ہیں۔ میرے پاس آپ کے لیے بہت سی سفارشیں ہیں۔ آپ معافی نامے پر دستخط کر دیں۔ آپ کا معافی نامہ عوام سے پوشیدہ رکھا جائے گا اور آج ہی آپ کو رہا کر دیا جائے گا۔‘‘ مولانا حافظ محمد شفیع اوکاڑوی نے جواباً کہا کہ ’’ مَیں نے عزت و ناموسِ مصطفی ﷺ کے لیے کام کیا ہے اور میرا عقیدہ ہے کہ حضورِ اکرم ﷺ آخری نبی ہیں، لہذا معافی مانگنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ بچے اللہ کو پیارے ہو گئے، میری جان بھی چلی جائے تب بھی اپنے عقیدے پر قائم رہوں گا اور معافی نہیں مانگوں گا۔ ‘‘ اس جواب پر حکومت برہم ہوئی اور مزید سختی کی گئی، دفعہ 3 میں نظر بند کر دیا گیا اور ملاقات وغیرہ پر بھی سختی سے پابندی تھی۔ مولانا حافظ محمد شفیع اوکاڑوی نے آخر وقت تک صبر و استقلال سے تمام صعوبتیں برداشت کیں۔ اوکاڑہ میں قیام کے دوران دِینی و مذہبی اور ملی سماجی امور میں ہمیشہ نمایاں طَور پر حصّہ لیتے رہے ۔
1955ء میں کراچی کے مذہبی حلقوں کے شدید اصرار پر کراچی آئے۔ کراچی کی سب سے بڑی مرکزی میمن مسجد (بولٹن مارکیٹ ) کے خطیب و امام مقرر ہوئے اور ہمہ جاں، تادمِ آخر شب و روز دِین و مسلک کی تبلیغ میں مصروف رہے۔ میمن مسجد کی امامت و خطابت کے بعد تقریباً تین برس جامع مسجد عیدگاہ میدان اور سَوا دو سال جامع مسجد آرام باغ اور بارہ برس نور مسجد نزد جوبلی مارکٹ میں بلامعاوضہ خطابت کے فرائض انجام دیتے رہے اور نماز جمعہ پڑھاتے رہے۔ ہر مقام پر زبردست اجتماع ہوتا۔ ان تمام مساجد میں بالترتیب تفسیرِ قرآن کا درس دیتے رہے اور تقریباً 29 برس میں نو پاروں کی تفسیر بیان کی۔ اس دوران 1964ء میں، پی ای سی ایچ سوسائٹی میں مسجد غوثیہ ٹرسٹ سے ملحق( جس کے آپ چئیر مین بھی تھے) ایک دِینی درس گاہ قائم کی جس کا نام دار العلوم حنفیہ غوثیہ ہے۔ متعدد طلبہ علومِ دینیہ حاصل کرکے چہار سمت تبلیغِ دِین و مسلک کر رہے ہیں۔ 1972ء میں ڈولی کھاتا، گلستانِ شفیع اوکاڑوی ( سولجر بازار ) کراچی میں ایک قطعہ زمین پر جو گذشتہ سو برس سے مسجد کے لیے وقف تھا، مولانا حافظ محمد شفیع اوکاڑوی نے تعمیر مسجد کی بنیاد رکھی اور بلا معاوضہ خطابت شروع کی۔ ایک ٹرسٹ قائم کیا، جس کا نام گُل زارِ حبیب ﷺ رکھا۔ مولانا حافظ محمد شفیع اوکاڑوی اس کے بانی و سربراہ تھے۔ اس ٹرسٹ کے زیر اہتمام جامع مسجد گُل زارِ حبیب اور جامعہ اسلامیہ گُل زارِ حبیب زیر تعمیر ہیں۔ اسی مسجد کے پہلو میں آپ کی آخری آرام گاہ مرجعِ خلائق ہے ۔
مسلسل چالیس برس تک ہر شب حافظ محمد شفیع اوکاڑوی مذہبی تقاریر فرماتے رہے ہیں۔ محمد شفیع اوکاڑوی کی علمی استعداد ،حُسنِ بیان، خوش الحانی اور شانِ خطابت نہایت منفرد اور ہر دل عزیز تھی۔ ہر تقریر میں ہزاروں، لاکھوں افراد کے اجتماعات ہوتے تھے۔ ماہِ محرم کی شبِ عاشورہ میں ملک کا سب سے بڑا مذہبی اجتماع، مولانا حافظ محمد شفیع اوکاڑوی کے خطاب کی مجلس کا ہوتا تھا۔ پاکستان کا کوئی علاقہ شاید ہی ایسا ہو جہاں مولانا حافظ محمد شفیع اوکاڑوی نے اپنی خطابت سے قلب و جاں کو آسودہ نہ کیا ہو۔ دِین و مسلک کی تبلیغ کے لیے مولانا حافظ محمد شفیع اوکاڑوی نے شرقِ اوسط، خلیج کی ریاستوں، بھارت، فلسطین، جنوبی افریکا، ماریشس اور دوسرے کئی غیر ملکی دَورے کیے۔ صرف جنوبی افریقا میں 1980ء تک محمد شفیع اوکاڑوی کی تقاریر کے ساٹھ ہزار کیسٹس فروخت ہو چکے تھے۔ دوسرے ممالک میں فروخت ہونے والی کیسٹس کی تعداد بھی کم نہیں اور اب محمد شفیع اوکاڑوی کی تقاریر کی وڈیو کیسٹس بھی پھیل رہی ہیں ۔
محمد شفیع اوکاڑوی کی عالمانہ تحقیق، فقہی بصیرت اور عشقِ رسول ﷺ پر مبنی متعدد تصانیف ہیں، جو مذہبی حلقوں میں نہایت قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں۔ ہر کتاب ہزاروں کی تعداد میں شائع ہوکر نہایت مقبول ہوئی۔ ان کے نام یہ ہیں :۔
اور متعدد فتووں وغیرہ پر مشتمل رسائل وغیرہ ۔
16اکتوبر 1962ء میں کراچی کے علاقہ کھڈا مارکیٹ میں ایک سازش کے تحت اختلافِ عقائد کی بنا پر کچھ لوگوں نے محض تعصب کا شکار ہوکر دَورانِ تقریر محمد شفیع اوکاڑوی پر چُھریوں اور چاقوؤں سے شدید قاتلانہ حملہ کِیا جس سے آپ کی گردن، کندھے، سَر اور پُشت پر پانچ نہایت گہرے زخم آئے۔ کراچی کے سول ہسپتال میں دو دن کے بعد پولیس آفیسر کو اپنا بیان دیتے ہوئے محمد شفیع اوکاڑوی نے کہا ’’ مجھے کسی سے کوئی ذاتی عناد نہیں۔ نہ مَیں مجرم ہوں۔ اگر میرا کوئی جرم ہے تو صرف یہ کہ مَیں دِینِ اسلام کی تبلیغ کرتا ہوں اور سید العالمین محسنِ انسانیت حضور رحمتِ دو جہاں ﷺ کی تعریف و ثناء کرتا ہوں۔ مَیں کسی سے بدلہ لینا نہیں چاہتا اور نہ مَیں حملہ آوروں کے خلاف کچھ کرنا چاہتا ہوں۔ میرا خون ناحق بہایا گیا ہے۔ اللہ تعالی اسے قبول فرمائے اور میری نجات کا ذریعہ بنائے۔ مَیں حملہ آوروں کو معاف کرتا ہوں۔ باقی آپ لوگ بقائے امن کے لیے جو مناسب ہو، وہ کریں تاکہ ایسی کارروائیاں آئندہ نہ ہوں۔ ‘‘ محمد شفیع اوکاڑوی نے اس مقدمے کے لیے کوئی وکیل نہیں کیا نہ کسی مقدمے کی پَیروی کی۔ صرف ایک گواہ کی حیثیت سے اپنا بیان دیا۔ محمد شفیع اوکاڑوی کا اس حملے سے جاں بَر ہونا محض ایک کرشمہ تھا ۔
انگریزی روزنامہ ڈیلی نیوز کا پہلا شمارہ اگلی صبح 17 اکتوبر کو جاری ہُوا۔ جس کی بڑی سرخی محمد شفیع اوکاڑوی پر قاتلانہ حملے سے متعلق تھی۔ محمد شفیع اوکاڑوی ڈھائی مہینے اسپتال میں زیرِ علاج رہے اور اسپتال سے فارغ ہوتے ہی پھر تبلیغِ دِین میں مصروف ہو گئے۔ اس قاتلانہ حملے کے خلاف ملک بھر میں شدید احتجاج ہُوا ۔
1965ء میں پاک بھارت جنگ کے موقع پر آپ نے پورے ملک میں جوش و جذبۂ جہاد کے لیے ملّت کی رہ نمائی کی۔ قومی دفاعی فنڈ میں ہزاروں روپے دیے اور اپنی تقاریر کے اجتماعات میں لاکھوں روپے کا سامان جو لباس اور اشیائے خور و نوش پر مشتمل تھا، جمع کیا اور ہزاروں روپے نقدی سمیت علمائے کرام کے ایک وفد کے ساتھ آزاد کشمیر گئے اور مقبوضہ کشمیر کے مظلوم مہاجرین کے کیمپوں وغیرہ میں بدستِ خود سامان تقسیم کِیا۔ آزاد کشمیر کے بائیس مقامات اور سیالکوٹ، چھمب جوڑیاں لاہور، واہگہ اور کھیم کرن کے متعدد محاذوں پر جاکر مجاہدین میں جہاد کی اہمیت اور مجاہد کی عظمت و شان اور فی سبیل اللّٰہ جہاد کے موضوع پر وَلوَلہ انگیز تقاریر کیں۔ محمد شفیع اوکاڑوی مرکزی جماعتِ اہلِ سنّت پاکستان کے بانی تھے۔ 1970ء میں قومی اسمبلی کے امیدوار کی حیثیت سے کراچی کے سب سے بڑے حلقے سے سوشل اِزم کی یلغار کے خلاف محمد شفیع اوکاڑوی نے انتخاب میں حصّہ لیا اور قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ قیام پاکستان سے تادم آخرمحمد شفیع اوکاڑوی، ایک مخلص اور محبِ وطن پاکستانی اور سچے پکّے مسلمان ہونے کا بھرپور مظاہرہ کرتے رہے ہیں۔ ان کی شخصیت ملک بھر میں بالخصوص اور دنیا بھر میں بالعموم محبوب و محترم اور مقبول و ممتاز رہی۔ محمد شفیع اوکاڑوی، تحریکِ نظامِ مصطفی ﷺ کے قافلہ سالار تھے۔ آج اس تحریک کو جو مرتبہ و مقام حاصل ہے۔ اس میں ان کی خدمات اور مساعی جمیلہ بنیادی اہمیت و حیثیت رکھتی ہیں۔ صدرِ مملکت جنرل محمد ضیاء الحق کی قائم کردہ مجلسِ شوریٰ کے معزز رُکن نامزد ہوئے اور قوانینِ اسلامی کے ترتیب و تشکیل اور نفاذ کے لیے کا رہائے نمایاں انجام دیے۔ علاوہ ازیں وزارتِ مذہبی امور کی قائمہ کمیٹیوں کے رُکن رہے۔ اپنی وفات سے چند ماہ قبل مرکزی محکمہ اوقاف پاکستان کے نگرانِ اعلی اور یونیورسٹی گرانٹس کمِشن کے رُکن رہے۔ محمد شفیع اوکاڑوی، قومی سیرت حکومتِ پاکستان کے بنیادی رُکن رہے۔ اتحاد بین المسلمین کے لیے ملک بھر میں نمایاں خدمات انجام دیں۔ قومی دفاعی فنڈ، افغان مجاہدین، سیلاب زدگان اور ہر ناگہانی سانحے سے متاثر ہونے والے افراد کی امداد میں ہمیشہ بڑھ چڑھ کر حصّہ لیتے رہے۔ محمد شفیع اوکاڑوی نے کراچی کے علاقے ’’ گولی مار ‘‘ کا نام ’’ گُل بہار ‘‘ اور ’’ رام باغ ‘‘ کا نام ’’ آرام باغ ‘‘ تجویز کیا، جو منظور و مقبول ہُوا۔ محمد شفیع اوکاڑوی نے کراچی شہر کی پولیس کو گشت اور فوری کارروائی کے لیے ’’ سواری ‘‘ (سوزوکی پک اپ ) کی فراہمی کی منظوری کروائی۔ سولہ مرتبہ سفرِ حج و زیارت اور عمرہ کی سعادت سے مشرف ہوئے۔ 1974ء میں پہلی مرتبہ عارضۂ قلب کی شکایت ہوئی مگر تبلیغی اور تنظیمی سرگرمیوں میں کوئی کمی نہیں کی بلکہ کچھ زیادہ جذبہ و جوش سے شب و روز چہار سمت میں صدائے حق بلند کرتے رہے۔ محمد شفیع اوکاڑوی نے کراچی شہر میں اہلِسنّت و جماعت کی طرف سے دس روزہ مجالسِ محرم اور جشنِ عید میلاد النبی ﷺ کے جلوس و جلسہ کے انعقاد کا سلسلہ شروع کِیا۔ تین ہزار سے زائد ا فراد ،محمد شفیع اوکاڑوی کے دستِ حق پرست پر مشرف بہ اسلام ہوئے۔ اور لاکھوں افراد کے عقائد و اعمال کی اصلاح ہوئی۔ محمد شفیع اوکاڑوی کو طریقت کے تمام سلاسل میں متعدد مشائخ سے اجازت و خلافت حاصل تھی۔ آپ کے مریدین ہزاروں کی تعداد میں دینا بھر میں موجود ہیں۔ محمد شفیع اوکاڑوی قبلہ نے جنوبی افریکا میں انجمن اہلِ سنّت و جماعت قائم کی۔ پاکستان میں سُنی تبلیغی مشن، انجمن محبانِ صحابہ و اہلِ بیت، تنظیم ائمہ و خطبا مساجد اہلِ سنّت اور متعدد ادارے قائم کیے۔ چالیس برس میں حضرت خطیبِ پاکستان نے سینکڑوں موضوعات پراٹھارہ ہزار سے زائد خطابات کیے۔ جو اب تک ایک عالمی ریکارڈ ہے۔ 1975ء میں دَورانِ سفر، دوسری مرتبہ دل کا دَورہ پڑا، اسی حالت میں کراچی آئے اور تقریباً چھ ہفتے اسپتال میں زیرِ علاج رہے۔ 1973ء میں آخری بیرونِ ملک سفر، بھارت کے لیے کیا۔ اپنے دَورے میں بمبئی، اجمیر، دہلی اور بریلی شریف گئے۔ مارچ 1984ء میں شرقپور شریف لے گئے اور اپنے پیرو مرشد کی درگاہ پر حاضری دی جو وہاں ان کی آخری حاضری ثابت ہوئی ۔
20 اپریل 1984ء کو آخری خطاب جامع مسجد گُلزارِ حبیب ﷺ میں نمازِ جمعہ کے اجتماع سے کیا۔ اسی شب تیسری بار دل کا شدید دَورہ پڑا اور قومی ادارہ برائے امراضِ قلب میں داخل ہوئے۔ تین دن بعدمنگل، 21 رجب المرجب 1404 ھ بمطابق 24 اپریل 1984ء کی صبح 55 برس کی عمر میں اذانِ فجر کے بعد دُرود و سلام پڑھتے ہوئے خالقِ حقیقی سے جاملے ۔
25 اپریل کو نشتر پارک، کراچی میں علامہ سید احمد سعید کاظمی کی امامت میں ظہر کی نماز کے بعد لاکھوں افراحضرت خطیبِ پاکستان کی نمازِ جنازہ ادا کی۔ اور پیارے کملی والے تاج دارِ مدینہ ﷺ کے اس عاشقِ صادق کو کمال محبت و احترام سے رخصت کیا ۔
اسی سہ پہر مرحوم مسجد گُل زارِ حبیب کے احاطے میں مدفون ہوئے ۔