ذاتی معلومات | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|
پیدائش | راولپنڈی، برطانوی ہندوستان | 8 فروری 1945|||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
وفات | 21 نومبر 2024ء | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
بلے بازی | دائیں ہاتھ کا بلے باز | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
گیند بازی | دائیں ہاتھ کا آف بریک گیند باز | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
بین الاقوامی کرکٹ | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
قومی ٹیم |
| |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
پہلا ٹیسٹ (کیپ 60) | 24 اکتوبر 1969 بمقابلہ نیوزی لینڈ | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
آخری ٹیسٹ | 9 دسمبر 1983 بمقابلہ آسٹریلیا | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
پہلا ایک روزہ (کیپ 30) | 21 نومبر 1980 بمقابلہ ویسٹ انڈیز | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
آخری ایک روزہ | 10 جنوری 1984 بمقابلہ آسٹریلیا | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
کیریئر اعداد و شمار | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
| ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
ماخذ: کرک انفو، 4 فروری 2006 |
ٰمحمد نذیرجونیئر،(انگریزی:Mohammad Nazir)( 8 مارچ 1946ء راولپنڈی، پنجاب- 21 نومبر 2024ء) ،[1] سابق پاکستانی کرکٹ کھلاڑی تھے جنھوں نے 1969ء سے 1984ء تک 14 ٹیسٹ اور 4 ایک روزہ بین الاقوامی میچ کھیلے اور پیشہ ورانہ کرکٹ سے ریٹائر ہونے کے بعد کرکٹ ایمپائر بنے انھوں نے پاکستان کے ساتھ ساتھ پاکستان ریلوے اور پنجاب یونیورسٹی کی طرف سے بھی کرکٹ کھیلی۔
آف اسپنر محمد نذیر نے 1969-70ء میں کراچی میں نیوزی لینڈ کے خلاف اپنے ٹیسٹ کیرئیر کا آغاز کیا انتخاب عالم کی قیادت میں قومی ٹیم تین ٹیسٹ میچوں میں اپنے جوہر دکھانے کے لیے تیار تھی کراچی کے پہلے ٹیسٹ میں پاکستان نے پہلے بیٹنگ کی صادق محمد 69 اور حنیف محمد 22 کی مدد سے 220 رنز بنائے کیوی باولر ہیڈلے ہاروتھ نے 80/5 کے ساتھ پاکستان لو کم سکور تک محدود کرنے کے لیے محنت کی تھی تاہم اپنا پہلا ٹیسٹ کھیلنے والے محمد نذیر نے ناقابل شکست 29 رنز بنا کر پاکستان کے سکور 153 سے 200 تک لے جانے میں مدد کی تھی یہی نہیں بلکہ اس نے ڈیبیو پر 99 رنز کے عوض 7 وکٹ لے کر اپنے بہترین اعداد و شمار حاصل کیے تھے نذیر نے اپنے30.1 اوورز میں 3 میڈن کے ساتھ کیوی کپتان گراہم ڈاولنگ40,بروس مرے50 ,برائن ہیسٹنگ22,مائیک برجس21,وک پولارڑ4,باب کیون5,اور ہیڈلے ہاروتھ0 کی وکٹیں لے کر سب کو حیران کر دیا دوسری اننگ میں نذیر نے 17 رنز ناٹ آوٹ بنائے تاہم۔ وہ دوسری اننگ میں کوئی اور وکٹ نہ لے سکے لاہور کے دوسرے ٹیسٹ میں نیوزی لینڈ نے پاکستان کو 5 وکٹوں سے ہرا دیا پاکستان پہلی اننگ میں 114 رنز بنا سکا نذیر 12 تک محدود رہے جواب میں کیوی بلے بازوں نے 241 رنز بنا کر برتری حاصل کرلی نذیر کے 36 اوورز میں 15 میڈن تھے مگر 54 رنز کے بعد بھی ان کے نصیب میں کوئی ایک وکٹ بھی نہ تھی پاکستان کے 208 رنز کی صورت میں کیوی ٹیم۔ کو آسان ہدف ملا جسے اس نے 5 وکٹوں پر باآسانی پورا کر لیا نذیر نے گرنے والی 5 میں سے 3 وکٹیں 19 رنز دے کر حاصل کر لی تھیں سیریز کا تیسرا ٹیسٹ ڈھاکہ میں تھا جہاں نذیر بیٹنگ اور بولنگ دونوں میں کوئی موثر کارکردگی دکھانے سے محروم رہے شائید اسی بنا پر ان کو 4 سال تک کسی ٹیسٹ ٹیم کا حصہ نہ بنایا گیا انھوں نے 1971ء اور 1974ء میں انگلینڈ کا دورہ کیا تاہم فرسٹ کلاس کرکٹ تک مجدود رہے لیکن 1972-73ء میں انگلینڈ کے دورہ پاکستان کے موقع پر حیدرآباد کے ٹیسٹ میں انھیں کھلایا گیا لیکن وہ بغیر وکٹ کے انھیں 125 رنز کا خسارہ برداشت کرنا پڑا اس صورت حال میں انھوں نے ماہوس ہونے کی بجائے ڈومیسٹک کرکٹ میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ جاری رکھا اور بلاآخر انھیں 1979-80ء میں واپس بلایا گیا جب انھوں نے ویسٹ انڈیز کے خلاف چار ٹیسٹ میں 16 وکٹیں حاصل کیں، جن میں فیصل آباد میں 120 رنز کے عوض 8 وکٹیں بھی شامل تھیں۔ یہ ٹیسٹ سیریز کا دوسرا ٹیسٹ تھا ویسٹ انڈیز نے پہلے کھیلتے ہوئے 235 رنز بنائے ویوین رچرڑ 72 اور فوادبیکس 45 نمایاں سکورر تھے محمد نذیر نے 22 اوورز میں 7 میڈن اوورز میں 44 رنز کے عوض ویوین رچرڑ، کلائیو لائیڈ، لیری گومز، میلکم مارشل، اور رنگے نانن کو پیویلین بجھوایا اس میچ کی خاص بات یہ تھی کہ پاکستان کی طرف سے دو اور سپنر اقبال قاسم اور عبد القادر بھی ویسٹ انڈین کھلاڑیوں کو تگنی کا ناچ نچا رہے تھے دوسری اننگ میں نذیر کے حصے میں مزید 3 وکٹیں آئیں اسی سیریز کے کراچی ٹیسٹ میں 2 اور ملتان ٹیسٹ می اس نے 4 کھلاڑیوں کی اننگ کا اختتام کیا لیکن انھیں دوبارہ ڈراپ کر دیا گیا 1981-82ء میں اس نے 14.67 کی اوسط سے 86 اور اگلے سال 20.72 کی قوسط سے 70 وکٹیں حاصل کیں اور 1983-84ء میں انھیں دوبارہ بھارت کے خلاف بھارت میں سیریز کے لیے واپس بلایا گیا۔ وہ پہلے دو ٹیسٹ میچوں میں وکٹ لینے میں ناکام رہے لیکن ناگپور کے آخری ٹیسٹ میں 122 رنز دے کر 7 وکٹیں لے کر انھوں نے ثابت کیا کہ وہ اب بھی گیندیں گھما سکتے ہیں اور یہی اچھی کارکردگی انھیں آسٹریلیا کے دورے کے لیے ٹیم میں جگہ بنانے کا موقع بن گئی[2]
1983ء میں آسٹریلیا کے خلاف پاکستان کا دورہ اس کی آخری ٹیسٹ سیریز تھی جسے اس کے کیرئیر کی ایک ناکام سیریز قرار دیا جا سکتا ہے جہاں وہ محض پرتھ کے اولین ٹیسٹ میں 91 مہنگے رنزوں کے عوض محض ایک وکٹ ہی حاصل کر سکے۔
محمد نذیر نے 1980ء میں ویسٹ انڈیز کے خلاف کراچی میں اپنے ایک روزہ بین القوامی کیرئیر کا آغاز کیا تھا انھوں نے بھارت کے خلاف حیدرآباد اور جے پور جبکہ آسٹریلیا کے خلاف سڈنی میں بھی ایک روزہ مقابلوں میں شرکت کی تاہم وہ لوئی متاثرکن کارکردگی نہ دکھا سکے کیرتی آزاد ان کی اس طرز کرکٹ میں ان کا پہلا شکار تھا جبکہ بھارت ہی کے سندیپ پاٹیل ان کی آخری وکٹ تھے جسے انھوں نے جے پور میں محسن حسن خاں کے ہاتھوں کیچ کروایا تھا۔
کرکٹ سے ریٹائر ہونے کے بعد وہ بین الاقوامی امپائر بن گئے۔ انھوں نے 1997ء میں پاکستان بمقابلہ جنوبی افریقہ شیخوپورہ ٹیسٹ میں پہلی بار ایمپائرنگ کے فرائض ادا کیے اور 2000ء میں پاکستان بمقابلہ انگلستان کراچی ٹیسٹ ان کا بطور ایمپائر آخری ٹیسٹ تھا انھوں 5 ٹیسٹ سپروائز کیے انھوں نے 1994ء میں جنوبی افریقہ بمقابلہ آسٹریلیا پشاور میں بطور ایمپائر اپنا پہلا ون ڈے میچ کور کیا تھا اور 2000ء میں پاکستان بمقابلہ انگلستان لاہور میں منعقدہ میچ ان کا آخری ون ڈے میچ تھا اس دوران انھوں نے 15 ایک روزہ میچ سپروائز کیے انھوں نے 8 ٹی ٹونٹی اور 45 فرسٹ کلاس میچ بھی سپروائز کیے۔
محمد نذیر جونئیر نے 14 ٹیسٹ میچوں کی 18 اننگز میں 10 مرتبہ ناٹ آئوٹ رہ کر 144 رنز بنائے جس میں ناقابل شکست 29 ان کا سب سے زیادہ سکور تھا۔ ہہ رنز 18.00 کی اوسط سے بنائے گئے جبکہ 4 ون ڈے میچوں میں وہ صرف 4 رنز ہی بنا سکے 180 فرسٹ کلاس میچوں کی 257 اننگز میں 66 بار ناٹ آئوٹ رہ کر انھوں نے 4242 رنز بنائے۔ ناقابل شکست 113 ان کا بہترین سکور تھا۔ 22.20 کی اوسط سے بنائے گئے ان رنزوں میں 2 سنچریاں بھی شامل تھیں۔ انھوں نے ٹیسٹ کرکٹ میں 1124 رنز دے کر 34 وکٹیں حاصل کی تھیں۔ 99 رنز کے عوض 7 وکٹیں ان کا کسی ایک اننگ میں بہترین ریکارڈ تھا جبکہ 120 رنز کے عوض 8 وکٹوں کا حصول ان کے کسی میچ میں بہترین کارکردگی تھی۔ 33.05 کی اوسط سے لی گئی وکٹوں میں 3 دفعہ کسی ایک اننگ میں 5 یا 5 سے زائد وکٹ بھی شامل تھے جبکہ فرسٹ کلاس کرکٹ میں 15971 رنز دے کر 829 وکٹ لینے کا کارنامہ انجام دیا 99/8 ان کی کسی ایک۔ اننگ کی بہترین کارکردگی تھی اور ان کی فی وکٹ اوسط 19.26 تھی انھوں نے ون ڈے کرکٹ میں 3 وکٹیں لیے۔
محمد نذیر جونیئرطویل علالت کے باعث 21 نومبر 2024ء کو78 سال کی عمر میں انتقال کرگئے۔ وزیراعظم محمد شہباز شریف اور چیئرمین پی سی بی محسن نقوی نے نذیر جونیئر کے انتقال پر افسوس کیا ہے۔[3][4]
پیش نظر صفحہ سوانح پاکستانی کرکٹ سے متعلق سے متعلق موضوع پر ایک نامکمل مضمون ہے۔ آپ اس میں مزید اضافہ کرکے ویکیپیڈیا کی مدد کرسکتے ہیں۔ |