محمد کرم | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائشی نام | محمد کرم شاہ |
پیدائش | 1 جولائی 1918ء بھیرہ، صوبہ پنجاب |
وفات | 7 اپریل 1998 اسلام آباد، پاکستان |
(عمر 79 سال)
شہریت | پاکستان برطانوی ہند |
مذہب | [اہلِ سنت]]، حنفی |
اولاد | محمد امین الحسنات شاہ |
عملی زندگی | |
مادر علمی | جامعہ الازہر |
پیشہ | منصف |
اعزازات | |
قومی سیرت النبی ایوارڈ (برائے:ضیاء النبی ) (1994) |
|
ویب سائٹ | |
ویب سائٹ | pirkaramshah |
درستی - ترمیم |
محمد کرم شاہ الازہری' ایک صوفی و روحانی بزرگ 1971ء سے مسلسل حدیث شریف کی اہمیت نیز اس کی فنی، آئینی اور تشریعی حیثیت کے موضوع پر شاہکار کتاب سنت خیر الانام، فقہی، تاریخی، سیاسی، معاشی، معاشرتی اور دیگر اہم موضوعات پر متعدد مقالات و شذرات آپ کی علمی، روحانی اور ملی خدمات کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ دارالعلوم محمدیہ غوثیہ بھیرہ شریف اور ملک بھر میں پھیلی ہوئی اس کی شاخوں کی صورت میں بر صغیر کی بے نظیر علمی تحریک اور معیاری دینی کتب کی اشاعت و ترویج کا عظیم اشاعتی ادارہ ضیاء القرآن پبلیکیشنز ان کے علاوہ ہیں۔
آپ کے نام کے بارے میں آپ کا اپنا قول ہے کہ 'حضرت پیر کھارا صاحب'،پیرمحمدکرم شاہ المعروف 'ٹوپی والے سرکار' کے ساتھ آپ کے خانوادہ کے نسبی تعلقات ہیں۔ اس لیے آپ کے جدِ امجد پیر امیر شاہ نے انہی کی نسبت سے آپ کا نام محمد کرم شاہ تجویز فرمایا آپ کا شجرہ نسب شیخ السلام مخدوم بہاءالدین زکریا ملتانی سہروردی سے جا ملتا ہے۔
آپ کی کنیت ابو الحسنات آپ کے بڑے صاحبزادے اور موجودہ سجادہ نشین محمد امین الحسنات شاہ صاحب کے نام سے منسوب ہے۔
آپ کی پیدائش رمضان المبارک 1336ھ بمطابق یکم جولائی 1918ء سوموار کی شب بعد نماز تراویح بھیرہ، ضلع سرگودھا میں ہوئی۔ آپ کے والد پیر محمد شاہ ہاشمی تھے۔
خاندانی روایت کے مطابق آپ کی تعلیم کا آغاز قرآن کریم سے ہوا ثقہ روایت یہ ہے کہ حافظ دوست محمد سے تعلیم کا آغاز ہوا استاد صاحب انتہائی سادہ مزاج اور نیک طبیت تھے۔ قرآن پاک کی جلد بندی کا کام کرکے رزق حلال کماتے تھے پوری زندگی کسی کے لیے بوجھ نہ بنے نہایت ملنسار اور خلیق تھے۔ جن اساتذہ سے قرآن کی تعلیم حاصل کی ان کے نام یہ ہیں۔
محمدیہ غوثیہ پرائمری اسکول کا آغاز 1925ء میں ہوا۔ آپ اس اسکول کے پہلے طالب علم ہیں۔ اس لحاظ سے سات سال کی عمر میں تعلیم کا آ غاز کیا پہلے استاد کا نام ماسٹر برخوردار تھا جو محمدیہ غوثیہ اسکول میں ہیڈ ماسڑ تھے۔ پرائمری اسکول میں اس وقت چار کلاسز ہوتی تھی اس لحاظ سے اس اسکول میں آپ کی تعلیم کا سلسلہ 1925ء سے 1929ء تک رہا اس کے بعد آپ نے 1936ء میں گورنمنٹ ہائی اسکول بھیرہ سے میٹرک کا امتحان پاس کیا ہائی اسکول میں دورانِ تعلیم جن اساتذہ سے اکتساب فیض کیا ان کے اسمائے گرامی یہ ہیں:
حضور ضیاءالامت نے مولانا محمد قاسم بالا کوٹی پڑھیں اور صرف و نحو اور بھی پڑھیں۔ اس کے بعد مولانا عبد الحمید صاحب کے رسا جیسی کتابیں پڑھیں۔ دیگر کئی علما سے بھی آپ نے علم دین کی بعض دوسری مشہور و معروف کتابیں پڑھیں۔ فلسفہ و منطق کی فنی کتابیں مولانا محمد دین موضع بدھو ضلع اٹک سے پڑھیں مولانا غلام محمد پپلاں میانوالی سے ادب ،فقہ اور ریاضی پڑھی
1941ء میں اوریئنٹل کالج لاہور میں داخلہ لیا اور فاضل عربی میں شیخ محمد عربی، جناب رسول خان صاحب، مولانا نورالحق جیسے اساتذہ سے علم حاصل کیا۔ آپ نے 600 میں سے 512 نمبر لے کر پنجاب بھر میں پہلی پوزیش لے کر فاضل عربی کا امتحان پاس کیا۔
علوم عقلیہ و نقلیہ سے فراغت کے بعد دورہ حدیث شیخ الاسلام، سیال شرف کے حکم پر جامعہ نعیمیہ مراد آباد میں سے 1942ء سے 1943ء تک مکمل کیا اور بعض دیگر کتب بھی پڑھیں۔
1945ء میں جامعہ پنجاب سے بی اے کا امتحان اچھے مقام سے کامیاب کیا۔
ستمبر 1951ء میں جامعہ الازہر مصر میں داخلہ لیا اور ساتھ ہی ساتھ جامعہ قاہرہ سے ایم-اے کیا۔ جامعہ الازہر سے ایم-فِل نمایاں پوزیشن سے کیا۔ یہاں آپ نے تقریباً ساڑھے تین سال کا عرصہ گزارا۔
دار العلوم محمدیہ غوثیہ کی نشاۃ ثانیہ: مصر سے واپس تشریف لا کر آپ نے دار العلوم محمدیہ غوثیہ بھیرہ کی نشاۃ ثانیہ فرمائی اس کا نصاب ترتیب دیا اور علوم قدیمہ و جدیدہ کا حسین امتزاج آپ نے امت کو فراہم کیا اس وقت دار العلوم محمدیہ غوثیہ کی شاخیں پاکستان، برطانیہ، یورپ سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں خدمت دین کا فریضہ ادا کر رہے ہیں اس ادارہ کے فارغ التحصیل علما بھی پوری دنیا میں دین اسلام کے اجالے پھیلا رہے ہیں
1981ء میں 63 سال کی عمر میں آپ وفاقی شرعی عدالت کے جج مقرر ہوئے اور 16 سال تک اس فرض کی پاسداری کرتے رہے۔ آپ نے متعدد تاریخی فیصلے کیے جو عدالتی تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔
1971ء میں آپ نے ماہنامہ ضیائے حرم کا اجرا کیا جو تاحال مسلسل شائع ہو رہا ہے۔
جون 1974ء میں لاہور میں ضیاء القرآن پبلیکیشنز کا قیام عمل میں آیا جو اسلامی مواد کو دنیا بھر میں پھیلانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کر رہا ہے۔
حکومت پاکستان نے 1980ء میں آپ کی علمی و اسلامی خدمات کے اعتراف میں اعزاز سے نوازا۔
مصر کے صدر حسنی مبارک نے 6 مارچ 1993ء میں دنیائے اسلام کی خدمات کے صلے میں دیا۔
حکومت پاکستان اور حکومت آزاد کشمیر نے 1994ء میں سیرت کے حوالے سے آپ کی گراں قدر خدمات کے اعتراف یہ میں اعزاز دیا۔
ڈاکٹر احمد عمر ہاشم نے جامعہ الازہر کا یہ سب سے بڑا اعزاز آپ کو دیا۔
9 ذوالحجہ 1418ھ بمطابق 7 اپریل 1998ء بروز منگل رات طویل علالت کے بعد آپ کا وصال ہوا۔ سجا دہ نشین آستانہ عالیہ سیال شریف حمید الدین سیالوی نے نماز جنازہ کی امامت کرائی، آپ کی قبر وصیت کے مطابق دربار عالیہ امیر السالکین میں آپ کے دادا جان پیر امیر شاہ کے بائیں جانب کھودی گئی۔[1][2]