اسلامی عالم محمد یوسف کاندھلوی | |||||||||||||||||||||||||||||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|
پیدائش | 20 مارچ 1917 (1335 ھ) | ||||||||||||||||||||||||||||||||
وفات | 1965 (1384 ھ) | ||||||||||||||||||||||||||||||||
عہد | بیسویں صدی | ||||||||||||||||||||||||||||||||
مذہب | اسلام | ||||||||||||||||||||||||||||||||
فرقہ | سنی | ||||||||||||||||||||||||||||||||
فقہ | حنفی | ||||||||||||||||||||||||||||||||
تحریک | دیوبندی | ||||||||||||||||||||||||||||||||
شعبۂ عمل | اسلام، دعوہ کے بنیادی اصول اور طریقے | ||||||||||||||||||||||||||||||||
مادر علمی | مظاہر علوم سہارنپور | ||||||||||||||||||||||||||||||||
پیر/شیخ | محمد الیاس کاندھلوی | ||||||||||||||||||||||||||||||||
|
آپ کا نام نامی محمد یوسف، والد کا نام محمد الیاس کاندھلوی ہے۔ آپ کے والد بانی تبلیغی جماعت ہیں اور چچازاد بھائی محمد زکریا کاندھلوی ہیں۔آپ والد کی وفات کے بعد باقاعدہ تبلیغی جماعت سے منسلک ہو گئے اور امیر مقرر ہوئے۔ تبلیغی جماعت کے اصول چلہ، چار ماہ وغیرہ کی ترتیب انہی کی بنائی ہوئی ہے۔ مشہور زمانہ کتاب حیاۃ الصحابہ (کتاب) آپ کی مرتب کردہ ہے۔ آپ جماعتوں کو سخت سے سخت تکلیف سہنے کے لیے تیار کرتے۔ ان کے بیان سحر انگیز ہوتے مرکز نظام الدین، بھارت میں آپ کا بیان سننے ہندو بکثرت آتے۔ آپ پاکستان کا سفر بھی اختیار کرتے۔ لاہو ر میں اجتماع کے دوران طبیعت خراب ہوئی اور ہسپتال کے راستہ میں انتقال ہوا۔ مسٹر گاندھی نے خصوصی طیارہ میت لانے کے واسطے پاکستان بھیجا۔
آپ کی ولادت کاندھلہ میں 25 جمادی اولیٰ 1335ھ بمطابق 20 مارچ، 1917ء کوبروز چہارشنبہ کوہوئی۔ آپ کے والد اس وقت مدرسہ مظاہر العلوم سہارنپور میں مدرس تھے۔
آپ نے جس ماحول میں پرورش پائی اس میں بچے بوڑھے جوان تقریباً سبھی قرآن کے حافظ ہوتے تھے۔ گھر کی بیبیاں تلاوت، ذکر و تسبیح اور نوافل وغیرہ کا ہتمام کرتیں، آپ کے خاندان میں علما و حفاظ بکثرت ہیں۔
دس سال کی عمر میں قرآن شریف حفظ کر لیا،۔ آپ کے حفظ کے استاذ امام خان میواتی ایک بڑے جید حافظ تھے۔ مشہور عالم دین سیدحسین احمد مدنی کے بڑے بھائی جو خود عالم فاضل تھے، مدینہ منورہ ہجرت کرچکے تھے، انھوں نے آپ کے لیے مدینہ منورہ سے حفظ قرآن کی ایک اعزازی سند بھیجی، اس وقت آپ بسی نظام الدین اولیاء میں اپنے والد کے ہاں تھے۔
مشہور عالم دین خلیل احمد سہارنپوری جو آپ کے والد کے شیخ تھے ان سے آپ کو بڑی محبت تھی۔ چنانچہ سید محمد ثانی حسن رقم طراز ہیں:
مولانا محمد یوسف صاحبؒ پر بچپن ہی سے بزرگوں کی اور مشائخِ وقت کی نظریں رہیں، مولانا ان بزرگوں کی گودوں میں پلے اور ان کے ناز پروردہ تھے، خصوصاً حضرت مولاناخلیل احمد سہارنپوری جو اس وقت کے شیخ المشائخ اور مرجع خلائق تھے، اس روشن حبین اور بلند اقبال فرزند پر خاص عنایت کی نظر رکھتے تھے۔ خود مولانا محمد یوسف صاحبؒ حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒ جو سے اس طرح پیش آتے تھے کہ جیسے کوئی لاڈلا بچہ اپنے بے پایاں شفقت کرنے والے باپ سے پپیش آتا ہے۔ یہ حضرت مولاناؒ کو ابا کہ کر ہکارتے تھے۔ گھر میں رحمتی نام کی خادمہ کھانا پاکتی تھی۔ ایک روز مولانا محمد یوسف صاحب مچل گئے اور کہنے لگے کہ میں تو ابا کے ہاتھوں کی پکائی ہوئی روٹی کھاؤں گا۔ حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری اندر تشریف لے گئے اور فرمایا کہ: میں اپنے بیٹے کے لیے روٹی پکاؤں گا۔ اور بے تکلف اپنے ہاتھوں سے روٹی پکائی اور مولانا یوسف صاحبؒ کوکھلائی۔[2]
فقہ کی کتابیں، کنزلدقائق تک حافظ مقبول حسن گنگوہی سے پڑھیں۔1351ھ میں آپ کے والد حج کو جانے لگے تو آپ کو مدرسہ مظاہرالعلوم سہارنپور میں داخل کر دیا۔ وہاں اس سال آپ نے ہدایہ اولین زکریا قدوہسی گنگوہی سے اور میبذی مشہور عالم دین جمیل احمد تھانوی سے پڑھی۔ والد صاحب کی حج سے واپسی پر کچھ مدت کے بعد آپ پھر بستی نظام الدین اولیاءؒ میں آ گئے اور آگے کی کتابیں مشکوۃ شریف اور جلالین پڑھیں۔ مشکوٰۃ شریف والد سے اور جلالین عالم دین احتشام الحسن کاندھلوی سے پڑھی۔ ساتھیوں میں انعام الحسن کاندھلوی، قاری سید رضا حسن بھوپالی، مولوی عبد الغفور میواتی تھے۔
تعلیمی سال آخر میں علالت کی وجہ سے اپنے علاقے بستی نطام الدین اولیاءؒ میں واپس آ گئے اور باقی ماندہ دو کتابیں سنن ابن ماجہ اور سنن نسائی شریف اپنے والد سے پرھیں۔
3محرم 1354 کو مظاہر علوم سہارنپور کے سالانہ جلسے میں محمد زکریا کاندھلوی کی بڑی صاحجزادی کے ساتھ، آپ کا نکاح ہوا۔ آپ کے والد نے بلا کسی سابقہ اور طے شدہ امر کے اچانک اردہ کیا۔ نکاح سیدحسین احمد مدنی نے پڑھایا۔ تقریباً ایک سال کے بعد رخصتی بھی اچانک اور پوری سادگی کے ساتھ ہوئی۔
مولانایوسف دعوت تبلیغ کے ان اکابر میں سے ہیں جن کی روزوشب کئی محنت نے اس مساعی جمیلہ کا دائرہ کار پوری دنیا میں پھیلا دیا-ان کے دور امارت میں مسجد نبوی سے بیرونی تبلیعی اسفار شروع ہوئے-حضرت محمد کئی سنت تبلیغ سے اس درجہ وابستگی تھی کہ مسجد سے ملحق گھر ہونے کے باوجود کئی کئی ماہ گھر جانے کئی نوبت نہ آتی تھی-مشہور ہے کہ انتقال پر والدہ محترمہ نے کہا بیٹا اب جی بھر آرام کرلے-
29 ذی قعدہ 1384ھ بمطابق 2 اپریل 1965ء کو بروز جمعہ 02:50 منٹ پر دار فانی سے کوچ کر گئے۔