گنجان آبادی والے علاقے | |
---|---|
| |
زبانیں | |
گادی | |
مذہب | |
اسلام | |
متعلقہ نسلی گروہ | |
راجپوت • گجر • جاٹ |
مسلمان راجپوت یا مسلم راجپوت ان راجپوتوں کو کہا جاتا ہے جو اسلام پر عمل پیرا ہیں۔ راجپوت ہندوستان پر آٹھ سے تیراہویں صدی عیسوی تک حکمران تھے اور اصلاً سبھی ہندو تھے۔ روایتی طور پر راجپوت سوریہ ونشی، چندرا ونشی اور اگنی ونشی قبائل میں منقسم ہیں۔[1]
1931ء کی برطانوی ہند کی مردم شماری ایک واحد باوثوق ذریعہ معلومات ہے جس سے راجپوت آبادی کی تقسیم کی صحیح معلومات کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس کی رو سے 10.7 ملین لوگ خود کو راجپوت قرار دیتے ہیں جن میں سے 8.6 ملین ہندو، 2.1 ملین مسلمان اور پچاس ہزار سکھ تھے۔[1]
مسلمان راجپوت قبائل جیسے کہ جنجوعہ راجپوت، خانزادہ راجپوت، سلہریا راجپوت مغل افواج کی فتح کا راست حصہ رہے۔ ہندو راجپوتوں نے بھی مغلوں کی مدد کی جس کی مثال راجہ مان سنگھ کی سیسوڈیاؤں کے خلاف 1568ء میں جلال الدین اکبر کی مدد کرنا ہے۔[1]
راجپوتوں کا اسلام قبول کرنا عمومًا قادریہ اور چشتیہ صوفی بزرگوں کے ہاتھ ہوا تھا ان ہستیوں کی محنت سے اسلام برصغیر کے کونے کونے پہنچا یہ سب ان کے اخلاص اور انسانیت سے بے پناہ محبت کا نتیجہ تھا ۔ راجپوتوں میں سے جس قبیلے نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا ان میں خانزادہ راجپوت اورسلہریا راجپوت تھے۔یہ بھی ممکن ہے کہ کچھ کا قبول اسلام سیاسی محرکات پر مبنی تھا کیونکہ دہلی سلطنت اور مغلوں نے اسلام کی قبولیت کی حمایت کی۔ مذہبی تبدیلی کا عمل برطانوی ہند کی انیسویں صدی میں بھی جاری رہا۔[1]
سر جان لارنس وائسرائے کے دور میں رائے گڑھ ریاست کا حکمران کھل کر اسلام کی جانب مائل ہونے لگا۔ اس سے اس کے معاصرین کو غصہ آیا اور ان کے جذبات اس قدر شدید تھے کہ اس نے تخت شاہی چھوڑنے کا فیصلہ کیا تاکہ وہ اپنے نودریافت عقیدے پر قائم رہ سکے۔ بعد کی تحقیقات سے پتہ چلا کہ وہ ایک اچھا حکمران تھا اور اس کے خلاف ناقص حکمرانی کا کوئی الزام نہیں تھا اور رعایا اس کی فرمانروائی سے مطمئن ہے۔ ایک سال کے گزرجانے کے بعد اس راجپوت حکمران نے برسرعام کلمہ طیبہ کا اقرار کیا اور ہندو مت سے کنارہ کش ہوا۔ اس اعلان عام میں اس کے فرزند بھی شامل ہوئے۔انگریزوں کے ساتھ سب سے زیادہ مزاحمت سلہریا راجپوتوں نے کی.اس معاملے سے انگریز دور میں ایک مثال قائم ہوئی کہ کسی قائد یا حکمران کو محض مذہب کی تبدیلی کی وجہ سے بدلا نہیں جا سکتا۔ اسی دور کے قریب میں مغربی اتر پردیش اور بلند شہر کی خورجہ تحصیل کے راجپوت مشرف بہ اسلام ہوئے تھے۔[1]
(ساند/سوڈھا پنوار)پنوار گادی بسیان, وگن، پنوار،کٹیسر،چوہان، نارُو، بھٹی، لدھے خیل بھٹی ،جنجوعہ، تلوکر، جرال، جتیال، کلوسے،میو، کھوکھر، سلہریا، جموال، گھگیان,جوئیہ،ڈوگرا ,قائم خانی، پنوار،راٹھور اور مہند چند عام مسلمان راجپوت خاندانی نام ہیں۔ یہ کثرت خاندانی ناموں کا حصہ ہے۔ اکثر شادی بیاہ مسلمان راجپوت اپنے ہی قبیلے میں کیا کرتے ہیں۔[1]
علاقہ | قبائل | ||
---|---|---|---|
اترپردیش | قبیلہ رانگھڑ کی گوتیں جیسے پنوار گادی (سوڈھا پنوار)، چوہان، تنوار،سردیا، جاٹو، وغیرہ اورپلکانہ (گوڑ اور جیسوال) | ||
ہریانہ | میو#چوہان،بڈگجر،ٹومر،دولوت
رانگڑ#پنوار گادی راجپوت گوتیں (سوڈھا پنوار)، پنوار، چوہان، تنوار، سدھو براڑ ، مدادھ، سردیا، رستمی پنوار، جاٹو، وغیرہ اور میو (لال داسی)، تُاونی، کھوکھر | ||
پنجاب | قبیلہ رانگھڑ کی تمام گوتیں مثلًا وریا / براہ ،سوڈھا، پنوار، چوہان، سردیا، رستمی پنوار، وغیرہاور پنجابی جیسے گھوڑے واہ، کٹیسر، کھوکھر راجپوت، نارُو، بھٹی، سدھو براڑ بھٹی ، منج، پُوَ، تِوانا، نون، نور، وگن، تلوکر، جوئیہ، گھیبا، جودھرا،سیال،ڈوگرا، سلہریا، کاٹل، منہاس، جادر، وٹو، کیرالا، دھامیال۔ اوڈراجپوت | ||
راجستھان | پنوار گادی (سوڈھا پنوار),قائم خانی (چوہان)، لالکھانی،لکھویرا،میو راٹھور،دولوت چوہان (جوئیہ)جوئیہ راجپوت :
جوئیہ خاندان قبیلہ کے معروف سردار لونے خان اور اس کے دو بھائی بر اور وسیل اپنے ہزاروں اہل قبیلہ کے ساتھ 635ھ کے قریب بابا فرید رحمۃ اللہ کے دست حق پر مشرف بہ اسلام ہوئے۔ بابا فرید نے لونے خان کو دعا دی، تو 12 فرزند ہوئے اس کا بڑا بیٹا لکھو خاں سردار بنا، بیکانیر میں رنگ محل کا قلعہ بنوایا بیکانیر میں قصبہ لکھویرا بھی اسی کے نام سے منسوب ہے۔ اس کی اولاد کو لکھویرا کہا جاتا ہے جو ضلع بہاولنگر اور پاکپتن میں آباد ہیں۔ بعض جوئیے اپنے قبیلے کو عربی النسل کہتے ہیں مگر اصل میں جوئیہ قوم ہند کی ایک قدیم قوم ہے۔ ٹاڈ کے مطابق جوئیہ قوم سری کرشن جی کی اولاد ہے یہ قوم پہلے بھٹنیر، ناگور اور ہریانہ کے علاقہ میں حکمران تھی اب بھی بھی یہ قوم راجپوتانہ میں اور اس کے ملحقہ علاقے میں کافی تعداد میں آباد ہے۔ قیام پاکستان کے بعد یہ قبیلہ بیکانیر سے ہجرت کر کے زیادہ تر ریاست بہاولپور اور ضلع ساہیوال، عارف والا، پاکپتن میں آباد ہو گیا۔ ساتویں صدی ہجری میں جوئیوں کی بھٹی راجپوتوں سے بے شمار لڑائیاں ہوئیں، دسویں صدی ہجری میں راجپوتانہ کے جاٹ اور گدارے جوئیوں کے خلاف متحد ہو گئے ان لڑائیوں سے تنگ آکر دریائے گھاگرہ کے خشک ہونے کی بنا پر جوئیہ سردار نے دسویں صدی ہجری میں اپنے آبائی شہر رنگ محل کو خیر باد کہا اور دریائے ستلج کے گرد و نواح ایک نیا شہر سلیم گڑھ آباد کیا زبانی روایات کے مطابق سلیم گڑھ کا ابتدائی نام شہر فرید تھا۔ بعد میں نواب صادق محمد خان اول نے لکھویروں کے محاصل ادا نہ کرنے کی وجہ سے نواب فرید خان دوم اور ان کے بھائی معروف خان اور علی خان کے ساتھ جنگ کی۔ جس کی بنا پر جنوب میں بیکانیر کی سرحد تک اور شمال میں پاکپتن کی جاگیر تک نواب صادق محمد خان کا قبضہ ہو گیا اور لکھویرا کی ریاست بہاولپور کی ریاست میں مدغم ہو گی۔ تاہم بعد ازیں شاہان عباسی نے لکھویروں کی ذاتی جاگیریں بحال کر دیں اور انھیں درباری اعزازات بھی دیے۔ جنرل بخت خان جنگ (آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کا سپہ سالار) بھی جوئیہ تھا یہ کوروپانڈوؤں کی نسل سے خیال کیے جاتے ہیں۔ راجپوتوں کے 36 شاہی خاندانوں میں شامل ہیں۔ ایک روایت کے مطابق راجا پورس جس نے سکندر اعظم کا مقابلہ کیا، جوئیہ راجپوت تھا۔ ملتان بار اور جنگل کے بادشاہ مشہور تھے۔ چونکہ سرسبز گھاس والے میدان کو جوہ کہا جاتا ہے۔ اسی جوہ کے مالک ہونے کی وجہ سے یہ جوھیہ اور جوئیہ مشہور ہوئے جو بابا فرید رحمۃ اللہ کے دست حق پر مشرف بہ اسلام ہوئے۔|- |
گجرات | مولے اسلام (گیراسیا) |
سندھ | ماہر، بھٹو، دیشوالی (اگنی ونشی)، ساما (بھاٹی)، سوڈھا (پرمار)، تونور، ستار (راٹھوڑ)، بھیا، تنو(وگن) ,جویو (جوئیہ)،میو خانزادہ | ||
آزاد کشمیر | جموال، منہاس ، میو راٹھور، منیال ، جرال، کلیال، کھکھہ، کھوکھر، چِبھ |