ملّی گزٹ کا مئی 2010 کا دوسرا شمارہ | |
قسم | آن لائن اخبار، پہلے پندرہ روزہ اخبار |
---|---|
مالک | فیرس گروپ |
ناشر | فیرس میڈیا |
ایڈیٹر ان چیف | ظفر الاسلام خان |
آغاز | جنوری 2000ء |
زبان | انگریزی |
صدر دفتر | نئی دہلی، بھارت |
آئی ایس ایس این | 0972-3366 |
او سی سی ایل نمبر | 54467165 |
ویب سائٹ | www |
ملّی گزٹ بھارت میں انگریزی زبان کا ایک ڈیجیٹل اخباری ادارہ ہے جو پہلے ایک پندرہ روزہ مستقل اخبار کے طور پر شائع ہوتا تھا اور دہلی میں قائم ہے۔ یہ جنوری 2000ء میں شروع کیا گیا اور اسے بھارتی مسلمانوں کا معروف اخبار کہا جاتا ہے۔[1] 2008ء میں اس نے اپنا ای-پیپر ورژن بھی شروع کیا۔[2]
برطانوی روزنامہ دی گارڈین نے اخبار کے ایڈیٹر ظفر الاسلام خان کے حوالے سے ملّی گزٹ کو "بھارتی مسلمانوں میں بڑے پیمانے پر پڑھا جانے والا اخبار" قرار دیا ہے[3] اور "بھارتی مسلمانوں کے لیے ایک بااثر اخبار" بتایا۔[4] دی ڈپلومیٹ اور دی سیٹیزن نے اس اشاعت کو بھارت کا پہلا انگریزی زبان میں شائع ہونے والا مسلمان اخبار قرار دیا۔[5][6]
ملّی گزٹ نے 1 تا 15 جنوری 2010ء کے شمارے کے ساتھ اپنی اشاعت کے 10 سال مکمل کیے۔[7] 2011 میں، دی انڈین ایکسپریس نے اطلاع دی کہ ملّی گزٹ کو بھارتی مسلمانوں سے متعلق خبروں کے لیے اکثر میڈیا ہاؤسز حوالہ دیتے ہیں۔[8]
مارچ 2016ء میں اخبار نے ایک رپورٹ شائع کی جس کا عنوان تھا "ہم مسلمانوں کی تقرری نہیں کرتے: وزارتِ آیوش" جو صحافی پشپ شرما نے لکھی۔ یہ رپورٹ آر ٹی آئی کے سوالات پر مبنی تھی، جو وزارت آیوش کو بھیجے گئے تھے اور جس میں مسلمانوں کو یوگا اساتذہ اور ٹرینرز کے طور پر تقرری سے انکار کا دعوی کیا گیا تھا کہ یہ "حکومتی پالیسی کے مطابق ہے"۔ وزارت نے شرما اور اخبار کے خلاف ایف آئی آر کے لیے کوٹلہ مبارک پور پولیس اسٹیشن کو ایک خط بھیجا۔ مئی 2016ء میں شرما کی جانب سے غلط معلومات کے اشاعت کے الزام پر اخبار کو شوکاز نوٹس بھیجا گیا جس کی شرما نے تردید کی۔ یہ شوکاز نوٹس تین سال بعد 2019ء میں واپس لے لیا گیا۔ ایڈیٹر ظفر الاسلام خان کا کہنا ہے کہ اس "تنازع" اور مالی مشکلات کی وجہ سے 2016ء کے آخر میں طباعتی اشاعت بند کر کے ڈیجیٹل اشاعت جاری رکھی گئی۔[9][10]
کاروان نامی مجلے کے صحافی سے گفتگو کرتے ہوئے خان نے کہا کہ مسلم سامعین کے ہونے کی بدنامی کے باعث "ہندو برادری اور ہندو کاروباری اداروں نے ہمارے ساتھ بالکل اشتہار نہیں دیا" اور وہ مسلمان جو اشتہارات دے سکتے تھے، انھوں نے حکومتی دباؤ کے خوف سے ایسا نہیں کیا۔[11]