منظور احمد وٹو | |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
مناصب | |||||||
وزیر اعلیٰ پنجاب | |||||||
برسر عہدہ 25 اپریل 1993 – 18 جولائی 1993 |
|||||||
وزیر اعلیٰ پنجاب | |||||||
برسر عہدہ 20 اکتوبر 1993 – 13 ستمبر 1995 |
|||||||
وزیر اعلیٰ پنجاب | |||||||
برسر عہدہ 3 نومبر 1996 – 16 نومبر 1996 |
|||||||
| |||||||
معلومات شخصیت | |||||||
پیدائش | 14 اگست 1939ء (85 سال) فضلکا |
||||||
شہریت | پاکستان برطانوی ہند |
||||||
جماعت | پاکستان پیپلز پارٹی | ||||||
عملی زندگی | |||||||
مادر علمی | اسلامیہ کالج لاہور | ||||||
پیشہ | سیاست دان | ||||||
مادری زبان | اردو | ||||||
پیشہ ورانہ زبان | اردو | ||||||
درستی - ترمیم |
میاں منظور وٹو اوکاڑہ کے وٹو خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ وٹو خاندان اوکاڑہ میں معاشی اور سیاسی لحاظ سے کافی مضبوط ہے۔ اس کے دیگر افراد میں سابق وزیر خزانہ میاں یسین خان مرحوم، میاں معین وٹو ایم این اے 144 اور میاں خرم جہانگیر شامل ہیں۔ میاں منظور وٹو پاکستانی سیاست میں بڑا نام ہیں وہ متعدد عہدوں پر فائز رہے جس میں وزیر اعلیٰٰ پنجاب ، اسپیکر پنجاب اسمبلی اور وفاقی وزیر امور کشمیر رہے۔ 2018ء کے عام انتخابات میں میاں معین وٹو سے شکست کھائی۔
میاں منظور احمد خان وٹو نے سیاسی کیرئر کا آغاز آزاد حیثیت سے الیکشن لڑ کر کیا اس سے پہلے 1977ء میں ذو الفقار علی بھٹو نے ان کو پیپلز پارٹی کا ٹکٹ دیا مگر بعد ازاں یہ ٹکٹ ان سے واپس لے کر غلام محمد مانیکا کو دیدیا گیاجس پر میاں منظور احمد وٹو نے آزاد حیثیت سے یہ الیکشن لڑا اور ہار گئے۔
اس کے بعد میاں منظور احمدوٹو ائر مارشل اصغرخان کی تحریک استقلال میں شامل ہو گئے۔ 1982ء میں ہونیوالے غیر جماعتی انتخابات میں میاں صاحب جیت کر ممبر ضلع کونسل بن گئے ان دنوں ساہیوال ضلع تھا مگر ان کے ارکان ضلع کونسل بننے کے ایک سال بعد 1983 میں اوکاڑہ کو بھی ضلع کی حیثیت مل گئی اور اس کیساتھ ہی میاں منظور احمد وٹو چیئرمین ضلع کونسل بھی بن گئے۔
اس کے بعد 1985ء کے انتخابات میں صوبائی اسمبلی کا الیکشن جیتنے کے بعد منظور احمدوٹو ایم پی اے بن گئے یوں اس وقت ان کے پاس ضلع کونسل کی چیئرمینی بھی تھی اور ممبر صوبائی اسمبلی بھی تھے اور یہی نہیں اسی برس میاں منظور احمدوٹو سپییکرصوبائی اسمبلی بھی بن گئے جس پر انھوں نے ضلع کونسل کی چیئرمین شپ چھوڑ دی اور انہی کے بھائی میاں احمد شجاع چیئرمین ضلع کونسل بن گئے۔
اس کے بعد 1988ء میں بھی میاں منظور وٹو پر قسمت مہربان ہوئی اور وہ پہلے ایم پی اے بنے اور پھر سپیکر بنجاب اسمبلی بھی بن گئے۔
1990ء کے انتخابات میں وٹو صاحب ایم این اے بھی بن گئے اور حویلی لکھا سے ایم پی اے بھی بن گئے۔ تاہم انھوں نے پارٹی کے کہنے پر ایم این اے کی سیٹ چھوڑ دی جس پر راؤ قیصر ایم این اے منتخب ہو گئے اور خود ایم پی اے کی بنا پر تیسری مرتبہ پھر سپیکر پنجاب اسمبلی بن گئے۔
ابھی انہی کی حکومت تھی کہ 1993ء میں وزیر اعلیٰٰ پنجاب غلام حیدر وائیں کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو کامیاب کروا کر میاں منظور احمدوٹو خود وزیر اعلیٰٰ پنجاب بن گئے تو اس وقت کے صدر غلام اسحٰق خان نے اسمبلیاں تحلیل کر دیں اس طرح منظور احمد وٹو کی وزارت اعلیٰ بھی ختم ہو گئی۔
مگر اس اقدام پر غلام حید روائیں سپریم کورٹ چلے گئے جس پر سپریم کورٹ نے اسمبلیاں بحال کر دیں اس طرح میاں منظور احمد وٹو ایک بار پھر وزیر اعلیٰٰ کی مسند پر براجمان ہونے میں کامیاب ہو گئے۔
اس کے بعد 1993ء کے انتخابات میں میاں منظور احمد وٹو نے تاندلیانوالہ سے الیکشن میں حصہ لیا اور کامیابی نے یہاں بھی ان کے قدم چومے بعد ازاں ان کی جونیجو لیگ نے پیپلز پارٹی کیساتھ الحاق کر لیا اور پیپلز پارٹی نے ان کو پنجاب کا وزیر اعلیٰٰ بنا دیا۔ اور ڈھائی سال تک اس کے وزیر اعلیٰٰ رہے اس کے بعد مرکز اور صوبے کی لڑائی میں ان کی وزارت اعلیٰ جاتی رہی اور بینظیر بھٹو نے سردار عارف نکئی کو وزیر اعلیٰٰ بنا دیا مگر صرف چھ ماہ بعد ہی فاروق لغاری نے اسمبلیاں تحلیل کر دیں۔
1995ء میں میاں منظور احمدوٹو نے مسلم لیگ (جناح)کے نام سے اپنی پارٹی بنالی تاہم 1997ء کے الیکشن میں جیت نہ سکے بلکہ اس عرصے میں نیب نے ان کے خلاف شکنجہ کسا اور پانچ سال تک کرپشن الزامات میں جیل میں رہے۔ تاہم اس کے باوجود ان کے بیٹے میاں معظم وٹو نے ایم پی اے کی سیٹ پر الیکشن جیت لیا اور 2001ء کے لوکل باڈی الیکشن میں جب کہ منظور وٹو جیل میں تھے مگر ان کا بیٹا میاں خرم جہانگیر وٹو تحصیل ناظم منتخب ہو گیا۔
2002ء میں میاں منظور وٹو جیل سے باہر آگئے اور اس سال ہونیوالے عام انتخابات میں ان کی بیٹی روبینہ شاہین وٹو ایم این اے منتخب ہو گئیں۔
2008ء کے انتخابات میں میاں منظور احمدخان وٹو دیپالپور اور حویلی لکھا دونوں جگہ سے ایم این اے منتخب ہو گئے جس پر این اے 146دیپالپور کی سیٹ انھوں نے اپنے پاس رکھی جبکہ حویلی کی سیٹ چھوڑ کر اپنے بیٹے خرم جہانگیر کو وہاں سے منتخب کروا دیا۔ اور اسی برس میاں منظور احمد وٹو پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئے اور اس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی کابینہ میں میاں منظور وٹو کو انڈسٹری کی وزارت دے دی گئی جبکہ ان کے بیٹے میاں خرم جہانگیر وٹو پارلیمانی سیکرٹری بن گئے۔
اسی دور میں جب سپریم کورٹ نے یوسف رضا گیلانی کی وزارت عظمیٰ ختم کی تو نئے وزیر اعظم راجا پرویز اشرف نے ان کو کشمیروبلتستان کا وزیر بنا دیا۔
2013ء کا سال میاں منظور احمد وٹو کے لیے کوئی اچھا شگون ثابت نہیں ہوا کیوں کہ اس برس پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر ہونے کے باوجود یہ الیکشن میں تمام سیٹیں ہار گئے تاہم الیکشن کے صرف 45دن بعد ہی حویلی میں ہونے والے ضمنی الیکشن میں مسلم لیگ ن کی جیتی ہوئی سیٹ پر ان کا بیٹا میاں خرم جہانگیر وٹو ایم پی اے منتخب ہو گیا۔
جب حالیہ الیکشن کا آغاز ہونے جا رہا تھا تو اس وقت میاں منظور احمد وٹو پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی نائب صدر اور میاں خرم جہانگیر وٹو ساہیوال ڈویژن کے صدر تھے۔
لیکن الیکشن 2018ء میں جیت کے لیے میاں منظور احمد خان وٹو نے ایک نئی سیاسی حکمت عملی ترتیب دی اور اپنی بیٹی روبینہ شاہین اور میاں خرم جہانگیر وٹو کو پی پی 184 اور پی پی 186 سے پاکستان تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑادیا جبکہ خود پی ٹی آئی سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے نتیجے میں این اے 144 سے آزاد کھڑے ہو گئے۔
اس حلقے میں پاکستان تحریک انصاف نے اپنا امیدوار کھڑا نہیں کیا جبکہ میاں منظور وٹو نہ صرف این اے 143 سے دستبردار ہو گئے بلکہ انھوں نے اس حلقے میں پی ٹی آئی کی حمائت کی۔
لیکن ان کی یہ سیاسی حکمت عملی کامیاب نہ رہی اور نہ تو عوام نے انھیں آزاد حیثیت میں کامیابی دلائی اور نہ میڈم روبینہ شاہین اور میاں خرم جہانگیر کو پی ٹی آئی ورکرز نے کھل کر سپورٹ کیا۔ اور ہار ان کا مقدر بنی۔
عوام کا کہنا ہے کہ میاں منظور وٹو نے پی ٹی ائی کیساتھ مل کر بڑی سیاسی غلطی کی ہے جس سے نہ صرف پیپلز پارٹی میں ان کی ساتھ متاثر ہوئی بلکہ پی ٹی آئی کے ووٹر نے بھی ان کو قبول نہیں کیا اس سے بہتر تھا کہ میاں منظور وٹو پیپلز پارٹی میں رہتے ہوئے الیکشن لڑ کر ہار جاتے۔
میاں منظور احمد وٹو کے سیاسی کیرئر کا یہ اتفاق بھی ہے کہ انھوں نے 1977ء میں پہلا الیکشن بھی آزاد حیثیت میں لڑا اور ہار گئے جبکہ 2018ء میں بھی آخری الیکشن بھی انھوں نے آزاد لڑا اور شکست کھائی۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ میاں منظور وٹو کو چالیس سال میں پہلی بار اتنی دفاعی پوزیشن میں آ کر سیاست کرنا پڑی کہ وہ ایک حلقے تک محدود ہو گئے ورنہ اس سے قبل وہ دو، دو حلقوں سے لڑتے اور جیتتے رہے ہیں بلکہ ایک دفعہ وہ اپنے حلقے سے ہٹ کر تاندلیانوالہ سے بھی الیکشن جیت چکے تھے