بانی | ڈاکٹر محمد طاہرالقادری |
---|---|
قیام | 17 اکتوبر 1989[1] |
صدر دفتر | لاہور، پاکستان |
کلیدی لوگ | امجد علی شاہ، خرم شہزاد |
خدمت دائرہ کار | تعلیم، صحت، فلاح عام |
مرکوز | آغوش، تعلیم، آئی سرجری کیمپ، فراہمی آب، اجتماعی شادیاں، قدرتی آفات میں ہنگامی امداد |
طریقہ کار | عطیات |
شعار | ’’ہمارا عزم ہمارا کام تعلیم، صحت، فلاح عام‘‘ |
موقعِ حبالہ | Welfare.org.pk |
منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن، تحریک منہاج القرآن کا فلاحی ادارہ ہے، جس کی بنیاد 17 اکتوبر 1989ء میں رکھی گئی۔ ،[2] یہ فلاحی ادارہ قدرتی آفات میں ہنگامی امدادی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے علاوہ مستقل نوعیت کے فلاحی منصوبہ جات پر بھی کام کرتا ہے، جن میں یتیم اور بے سہارا بچوں کی تعلیم اور کفالت کا منصوبہ آغوش [3] غریب و بے سہارا جوڑوں کی اجتماعی شادیاں وغیرہ شامل ہیں۔
منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن تحریک منہاج القرآن کے تحت قائم ایک بین الاقوامی فلاحی و رفاہی تنظیم ہے، جس کا مقصد امداد باہمی کے تصور کے تحت معاشرے کے تمام طبقات میں تعاون، اخوت، عزت و احترام اور انھیں خوش حال زندگی گزارنے کے لیے اعانت فراہم کرنا ہے۔
منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن ’’تعلیم‘‘، ’’صحت‘‘ اور ’’فلاح عامہ‘‘ کے میدانوں میں نمایاں خدمات سر انجام دے رہی ہے۔
پاکستان میں اب تک قائم ہونے والے تعلیمی اداروں کی تفصیل یہ ہے:
منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن کی اولین ترجیح تعلیم سب کے لیے (Education for All) ہے۔ اس مقصد کے لیے غیر حکومتی سطح پر رسمی و غیر رسمی تعلیم اور تعلیم بالغاں کے ذریعے پاکستان میں شرح خواندگی میں اضافے کی کاوشیں جاری ہیں۔
تعلیمی اداروں میں جدید ترقی یافتہ نظام تعلیم نافذ کیا گیا ہے، جس میں دینی اور دنیاوی تعلیم کو مربوط کر کے نصاب مرتب کیا گیا ہے اور اسے بین الاقوامی معیار سے ہم آہنگ کرنے کے لیے ترقی یافتہ ممالک کے تجربات سے فائدہ اٹھایا گیا ہے۔ طلبہ کی تعلیمی استعداد بڑھانے کے لیے نظام امتحانات میں اصلاحات کی جا رہی ہیں۔ موجودہ نظام امتحان طلبہ کی تعلیمی استعداد و قابلیت کی بجائے محض یادداشت کا امتحان ہے۔ تعلیم اور نظام امتحان کو ’’تحصیلِ علم‘‘ کا نظام بنایا جا رہا ہے۔
نظام تعلیم میں اصلاحات کے ذریعے معیاری اور مقداری تبدیلی لانے کی کوشش کی گئی ہے۔ ابتدائی سے لے کر اعلیٰ سطح تک تمام تعلیمی اداروں میں تعلیم کو بامقصد، علمی اور بین الاقوامی معیار سے ہم آہنگ کیا گیا ہے۔
تعلیمی اداروں سے ہر طرح کے مذہبی، علاقائی، لسانی، طبقاتی اور فرقہ وارانہ تعصبات اور نفرتوں کو تعلیمی نصاب اور تعلیمی اداروں سے خارج کیا گیا ہے۔
منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن کے تحت ساہیوال ،[4] ملتان، پاکپتن، گوجرانوالہ اور مردان میں پانچ منہاج ویلفیئر ہسپتال قائم کیے جا چکے ہیں۔ مرکزی تعلیمی اداروں کے اسٹاف ممبرز اور طلبہ و طالبات کے لیے بھی ایک منہاج کلینک قائم کیا گیا ہے، جہاں علاج و معالجہ کی سہولت مفت پہنچائی جاتی ہے۔
منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن ’منہاج فری ڈسپنسریز‘ کے نام سے پاکستان بھر میں 107 ڈسپنسریز چلا رہی ہے۔
منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن ضلع ناروال میں ہر سال ’سالانہ فری آئی سرجری کیمپ‘ کا اہتمام کرتی ہے، جہاں معروف آئی اسپیشلسٹ مریضوں کا معائنہ اور آپریشن کرتے ہیں۔ آئی کیمپ میں مریضوں کے قیام، طعام، ادویات، ٹیسٹ اور آپریشن کا مکمل خرچ منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن کے ذمہ ہوتا ہے۔
ٹاؤن شپ لاہور میں یتیم اور بے سہارا بچوں کی کفالت اور تعلیم کے لیے آغوش کے نام سے پانچ منزلہ عمارت بنائی گئی، جس کا آغاز صوبہ خیبر پختونخوا اور آزاد کشمیر میں 8 اکتوبر 2005ء کو آنے والے زلزلہ سے متاثرہ یتیم بچوں سے کیا گیا تھا۔ بعد ازاں اس میں دیگر علاقوں کے بچے بھی داخل ہوتے چلے گئے۔[5]
منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن نے ’بیت المال‘ قائم کیا ہے جس کا مقصد غریب اور نادار افراد کی مالی مدد کرنا ہے۔
پاکستانی معاشرے کی غریب، نادار اور مستحق بچیوں کی شادیوں کی اجتماعی تقاریب کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ جہیز کا سامان، بارات اور مہمانوں کی باعزت تواضع اور بچیوں کی رخصتی کا اہتمام منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن کرتی ہے۔ سال 2015ء تک ایک ہزار سے زیادہ نادار بچیوں کی شادیاں کروائی جا چکی ہیں۔
پاکستان کے دور افتادہ علاقوں میں پانی کی فراہمی ایک جانگسل کام ہے، جہاں خواتین کئی میل پیدل سفر طے کر کے پینے کا پانی لے کر آتی ہیں۔ غریب آبادی کو پینے کے پانی کی مفت فراہمی کے لیے ابتدائی طور پر 1500 مقامات پر پانی کے نل لگوائے جا چکے ہیں۔
منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن کسی ملکی یا غیر ملکی ایجنسی، فلاحی ادارے، حکومت یا حکومتی ادارے سے اپنے منصوبہ جات کے لیے امداد نہیں لیتی۔ تمام فلاحی منصوبہ جات کے لیے امدادی رقوم کی فراہمی تحریک منہاج القرآن کے کارکنان اور ارکان کے ذمہ ہے۔ بالخصوص بیرون پاکستان مقیم منہاج القرآن کی تنظیمات اور ارکان اس کے وسائل کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔[6]
پاکستان کے اندر فنڈز جمع کرنے کے لیے درج ذیل ذرائع استعمال کیے جاتے ہیں: