میر سید علی ہمدانی

میر سید علی ہمدانی
 

معلومات شخصیت
پیدائش 22 اکتوبر 1314ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ھمدان   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 18 جنوری 1385ء (71 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کولاب   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت ایران   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ شاعر ،  فلسفی ،  متصوف   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان فارسی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تاجکستانی سمونی پر موجود علی ہمدانی کی تصویر

میر سید علی ہمدانی ایک ایرانی صوفی بزرگ تھے جو سلسلہ کبرویہ سے منسلک تھے۔ ان کے والد کا نام شہاب الدین بن محمد تھا جو ہمدان کے حاکم اور امیر تھے۔

ولادت

[ترمیم]

میر سید علی ہمدانی12 رجب 714 ھ بمطابق 12 اکتوبر 1314ء کو ایران کے شہر ہمدان میں پیداہوئے۔

ابتدائی تعلیم

[ترمیم]

ابتدائی تعلیم اپنے خالوسید علاؤ الدین اور اس وقت کے بزرگ شرف الدین مزدقانی سے حاصل کی۔

داخلہ طریقت

[ترمیم]

آپ پہلے شیخ تقی الدین دوستی کے مرید تھے بعد میں شرف الدین محمود مزدقانی سے بیعت ہوئے آپ جب اپنے پیرو مرشد شرف الدین مزدقانی کے پاس آئے چونکہ آپ حاکم ہمدان کے بیٹے تھے تو مرشد نے کہا اگر آپ بحیثیت آقا آئے ہیں تو میں خدمت کرنے کو تیار ہوں اور اگر بحیثیت خادم آئے ہیں تو پھر اس خانقاہ کے خاکروب کی حیثیت وقف کر دیں آپ کو مرشد نے دنیا کی سیر اور مختلف اولیاء سے فیض حاصل کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی۔

کشمیر آمد

[ترمیم]

سید علی ہمدانی سات سو مبلغوں، ہنرمندوں اور فن کاروں کی جماعت لے کر کشمیر پہنچے اور اس ثقافت کا جنم ہوا جس نے جدید کشمیر کو شناخت مہیا کی۔ انھوں نے وادی کشمیر، لداخ، بلتستان میں سب سے پہلے اسلام پھیلانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ اور کشمیر کی ثقافت اور معیشت کو بھی ترقی دی۔ آج بھی ان کی درسگاہ جو خانقاہ معلیٰ سے مشہور ہے مخلوق خدا کے لیے مشعل ہدایت کا کام کر رہی ہے انھوں نے کئی کتابیں لکھیں علامہ اقبال بھی ان کی شخصیت سے متاثر تھے۔

تصنیفات

[ترمیم]

سید علی ہمدانی ایک درویش، صوفی اور مبلغ اسلام ہونے کیساتھ مصنف بھی تھے۔ آپ نے عربی اور فارسی میں تقریباَ 1000کے آس پاس کتابچے لکھے۔ "تحائف الابرار" میں آپ کی تصنیف کردہ کتب کی تعداد ایک سو ستر 170 بیان کی گئی ہے۔ ان میں سے کئی کتب برصغیر پاک و ہند پر مغلیہ دورحکومت میں شامل درس رہی ہیں۔ تقریباً ستر70 کتب موجود ہیں جبکہ باقی نایاب ہیں، بہت سی کتب کے قلمی نسخے، برٹش میوزیم لندن، انڈیا آفس لائبریری، ویانا، برلن، پیرس، تہران، تاشقند، تاجکستان، پنجاب یونیورسٹی لائبریری، بہاولپور، ایشیاٹک سوسائٹی بنگال، میسور اور بانکی پورہ انڈیا میں موجود ہیں۔ جن میں آپ کی مشہور کتاب 'ذخیرۃ الملوک' کے کئی زبانوں میں ترجمے بھی ہو چکے ہیں۔ کچھ دوسری مشہور تحریریں ذیل میں دی گئی ہیں:

  • ذخیرۃ الملوک : اچھی حکومت چلانے کے اصول اور اخلاقیات سیاست
  • رسالہ نوریہ : غور و فکر پر ایک تحریر
  • رسالہ مکتوبات : سیدعلی ہمدانی کے سلاطین، اُمراء اور مریدین کو لکھے گئے 22 بائیس خطوط پر مشتمل کتابچہ ہے۔
  • در معرفت صورت و سیرت انسان: انسان کی ظاہری اور باطنی حالت پر بحث۔
  • در حقائق توبہ : سچی توبہ کے متعلق
  • رسالۃ الاصطلاحات : روحانیت پر کتابچہ
  • حل النصوص عل الفصوص:
  • علم الکیفیہ: اس کی ایک نقل [1] میں موجود ہے۔
  • اوراد الفتیحہ : اللہ تعالٰی کی وحدانیت اور صفات کے بارے میں۔

القابات

[ترمیم]

ان کا نام علی تھا اور مختلف القاب سے جانے جاتے تھے۔ مثلاَ علی ثانی، امیر کبیر، شاہ ہمدان وغیرہ۔

وصال

[ترمیم]

آپ کا وصال 6 ذو الحج 786ھ بمطابق 19 جنوری 1387ء کو ہوا اور کولاب اپنے آبائی علاقے میں مدفون ہیں۔[2][3]

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. United States National Library of Medicine
  2. اولیائے کشمیر، پیرزادہ محمد طیب حسین نقشبندی،صفحہ 16 تا 21،نذیرسنز پبلشر لاہور،نومبر 1988
  3. اوراد فتحیہ،صفحہ 17،میر سید علی ہمدانی،الفیصل ناشران و تاجران کتب لاہور