میر گل خان نصیر | |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
1st Education Minister of Balochistan | |||||||
مدت منصب 1972 – 1973 | |||||||
| |||||||
معلومات شخصیت | |||||||
پیدائش | 14 مئی 1914ء کراچی |
||||||
وفات | 6 دسمبر 1983ء (69 سال) کراچی |
||||||
شہریت | پاکستان برطانوی ہند |
||||||
نسل | بلوچ | ||||||
مذہب | Sunni Muslim | ||||||
عملی زندگی | |||||||
پیشہ | صحافی ، سیاست دان ، شاعر | ||||||
مادری زبان | اردو | ||||||
پیشہ ورانہ زبان | بلوچی ، اردو | ||||||
تحریک | ترقی پسند تحریک | ||||||
درستی - ترمیم |
میر گل خان نصیر بلوچستان کی ایک ہر دلعزیز شخصیت تھے۔ آپ کو ملک الشعرا کا خطا ب دیا گیا تھا۔ آپ1914ء کو نوشکی، بلوچستان میں پیداہوئے۔ آپ ایک مقبول سیاستدان، ایک قوم پرست شاعر، ایک تاریخ دان اور صحافی کی حیثیت سے پہچانے جاتے تھے۔ آپ نے فارسی،اردو اور بلوچی زبانوں میں شاعری کی۔ 6 دسمبر،1983ء کو یہ مڈ ایسٹ ہسپتال کراچی میں کینسر کے موذی مرض کے ہاتھوں چل بسے۔
میر گل خان نصیر 14 مئی، 1914ء کو بلوچستان کے شہر نوشکی میں مینگل قبیلے کی ایک شاخ پائیند خیل کے میر حبیب خان کے ہاں پیدا ہوئے۔ درجہ چہارم تک اپنے گاؤں میں تعلیم حاصل کی پھر گورنمنٹ سنڈیمن ہائی اسکول کوئٹہ چلے گئے میٹرک کے بعدآپ نے اسلامیہ کالج لاہور میں داخلہ لیا، بارہویں جماعت میں انگیٹھی سے ایک کوئلہ کا ذرہ آپ کی آنکھ میں چلا گیا جس کے باعث آپ واپس گھر آ گئے۔ اسلامیہ کالج لاہور ادبی و سیاسی سرگرمیوں کا گڑھ تھا اس دور میں بلوچستان مختلف حصوں میں بٹا ہوا تھا ایک حصہ چیف کمشنر کے ماتحت تھا ،باقی صوبہ ریاستوں میں تقسیم تھا جنہیں انگریز مقامی قبائلی رہنماؤں کے ذریعے کنٹرول کرتے تھے ۔
لاہور سے واپس آکر آپ نے "انجمن اتحاد بلوچستان" کی تنظیم میں شرکت اختیار کی یہ تنظیم1921ءمیں قائم ہوئی تھی 1936ء میں یہ تنظیم جب غیر فعال ہو گئی تو بلوچستان کے نوجوانوں نے "انجمن اسلامیہ ریاست قلات " کے نام سے تنظیم بنائی۔ میر گل خان نصیر صدر اور عبد الرحیم خواجہ خیل اس کے جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے مشرقی پاکستان کے سانحہ کے بعد میر عطا اللہ مینگل کی وزارت عظمیٰ کے دوران آپ صوبائی وزیر تعلیم، صحت اور انفارمیشن کے صوبائی وزیر تھے آپ کے دور میں بولان میڈیکل کالج کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔ اس دوران بلوچستان حکومت کے اکبر بگٹی سے اختلافات بہت بڑھ گئے۔ پاکستان کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹونیشنل عوامی پارٹی ( عدالتی حکم پر غدار قرار دئے جانے کے بعد موجودہ عوامی نیشنل پارٹی) سے جان چھڑانا چاہتے تھے انھوں نے اس موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے خیبر پختونخوا(اس وقت صوبہ سرحد کہلاتا تھا ) اور بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی کی حکومت ختم کر دی اور ان کے رہنماؤں کو جیل میں ڈا ل دیا اور دونوں صوبوں میں گورنر راج نافذ کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی بلوچستان میں ملٹر ی آپریشن شروع کر دیا۔ جب پاک آرمی میر گل خان نصیر کے 72 سالہ بھائی میر لونگ خان کو گرفتار کرنے دشت گوران میں داخل ہوئی تو میر لونگ خان نے ہتھیار ڈالنے کی بجائے مزاحمت کا فیصلہ کیا پاک آرمی کے ساتھ مقابلہ ہوا پاک آرمی جدید ترین اسلحہ سے لیس تھی جبکہ میر لونگ خان کے ساتھ مینگل بیرل بندوقوں سے مسلح چند افراد تھے اس لڑائی میں میر لونگ خان جان بحق ہوئے جبکہ پاک آرمی کے 29 جوان اللہ کو پیارے ہوئے۔ میر گل خان نصیر، ان کے چھوٹے بھائی کرنل (ر) سلطان محمود خان، غوث بخش بزنجو اورخیر بخش مری کو گرفتار کر لیا گیا۔ میر گل خان نصیر نے ایام اسیری میں بہت کلام لکھا۔ یہ سب کچھ اکبر بگٹی مرحوم کے دور حکومت میں ہوا عوامی نیشنل پارٹی کے سرکردہ رہنماؤں خان عبدالولی خان، سردار عطا اللہ مینگل، نواب خیر بخش مری، سید قصور گردیزی، حبیب جالب، غوث بخش بزنجو پر ٹریبونل کے سامنے غدار ی کا مقدمہ چلا ضیا الحق کے دور حکومت میں ان رہنماؤں کو رہائی ملی جس کے بعد غوث بخش بزنجو، سردار عطا اللہ مینگل، گل خان نصیر، نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ افغانستان میں پناہ لی جبکہ خیر بخش مری اور شیرو مری مستقل طور پر افغانستان منتقل ہو گئے
؎من شبیہہ این جوان ہائے شجاعی ہستم
کہ در کمین گاہ دشمنان گرفتار شدہ اند
آپ کے فارسی کے حوالے سے 30 کے قریب نظمیں و غزلیں ہیں اورجنگ نامہ مشہد آپ کی عمدہ تصانیف میں سے ایک ہے جس میں آپ نے احمد شاہ ابدالی کے کہنے پر مشہد پر حملہ کیا اور اسے فتح کیا۔