نامعلوم افراد
![]() | |
---|---|
نامعلوم افراد | |
ہدایت کار | نبیل قریشی |
پروڈیوسر | فضا علی میرزا |
تحریر | نبیل قریشی فضا علی میرزا |
ستارے | جاوید شیخ فہد مصطفیٰ محسن عباس حیدر عروہ حسین |
موسیقی | شانی - کامی وکی حیدر |
سنیماگرافی | رانا کامران |
ایڈیٹر | آصف ممتاز |
پروڈکشن کمپنی | فلم والا پکچرز |
تقسیم کار | ہم فلم، ایوری ڈے پکچرز |
تاریخ نمائش | 6 اکتوبر 2014ء |
دورانیہ | 137 منٹ |
ملک | پاکستان |
زبان | اُردو |
بجٹ | 9 کروڑ[1] |
باکس آفس | 10.22 کروڑ[2] |
نامعلوم افراد 2014ء میں نمائش کے لیے پیش ہونے والی ایک پاکستانی مزاحیہ فلم ہے جسے نبیل قریشی اور فضا علی میرزا نے تحریر کیا ہے جب کہ نبیل قریشی کی ہدایت کاری میں بننے والی یہ پہلی فلم ہے۔[3] فلم کے مرکزی کرداروں میں جاوید شیخ، پاکستانی ڈراموں کے معروف اداکار فہد مصطفیٰ اور محسن عباس حیدر شامل ہیں، جب کہ عروہ حسین، کبریٰ خان اور سلمان شاہد نے بھی نمایاں کردار ادا کیے ہیں۔ فلم کی کہانی کراچی شہر میں امن و امان کی خراب صورتِ حال کو ہلکے پھلکے انداز میں پیش کرتی ہے۔ فلم 6 اکتوبر 2014ء کو عید الاضحیٰ کے موقع پر ہم فلمز اور ایوری ڈے پکچرز کی طرف سے پاکستان بھر میں ریلیز کی گئی۔ اپنی نمائش کے پہلے ہی دن فلم نے تقریباً 45 لاکھ روپے کمائے اور فلم بینوں کی طرف سے سراہی گئی۔
پاکستان کے متعدد علاقوں میں امن و امان کی صورتِ حال خاصے عرصے سے مخدوش ہے۔ اخبارات اور پولیس رپورٹوں میں دہشت گردی کی کارروئیاں کرکے فرار ہوجانے والے ایسے افراد کے لیے نا معلوم افراد کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے جن کا وقتی طور پر کوئی سراغ نہیں ملتا۔[4][5] بعض اوقات اس اصطلاح سے مراد وہ سیاسی مسلح گروہ ہوتے ہیں جن کا نام لینا سیاسی مصلحت کے خلاف ہوتا ہے۔ فلم میں اسی پہلو کو بنیاد بنایا گیا ہے کہ کراچی میں تین افراد اپنے منصوبے کو کام یاب بنانے کے لیے ایک پُر تشدد ہڑتال کے دن دیگر نا معلوم افراد کی آڑ لیتے ہیں۔
فلم کی کہانی کراچی میں رہنے والے تین افراد کے گرد گھومتی ہے جو اپنے خراب مالی حالات کے باعث پریشان ہیں۔ خود کو معاشی طور پر جلد سے جلد مستحکم کرنے کی غرض سے انھیں ایک انوکھا خیال سوجھتا ہے۔ اس خیال کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اُن سے کئی غلطیاں، حماقتیں اور مضحکہ خیز حرکتیں سرزد ہوتی ہیں۔
مون (محسن عباس حیدر) کا تعلق گاؤں کے ایک میراثی گھرانے سے تھا لیکن اُسے وہ پیشہ کبھی پسند نہیں رہا۔ چناں چہ وہ دبئی جانے کی خواہش میں کراچی چلا آتا ہے۔ کراچی آکر اُسے گڑیوں کا کاروبار کرنے والے گوگی (سلمان شاہد) کا پتا چلتا ہے۔ گوگی گڑیوں کے کاروبار کی آڑ میں منشیات کا دھندا کرتا ہے۔ وہ مون کو دبئی جانے کے لیے رقم فراہم کرتا ہے اور ساتھ میں ایک گڑیا بھی دیتا ہے۔ بعد ازاں مون پر جب انکشاف ہوتا ہے کہ گڑیا میں منشیات چھپائی گئی تھی تو وہ گڑیا چھوڑ کر بھاگ جاتا ہے۔ یوں، وہ گوگی سے دشمنی مول لیتا ہے۔ مون کراچی پاور سپلائی کمپنی میں ملازمت اختیار کرلیتا ہے اور دن رات کمپنی کی ناقص کارکردگی پر لوگوں کی جھڑکیاں سنتا ہے۔ گھر کا کرایہ ادا نہ کرنے پر اُس کی مالکن اُسے گھر سے نکال دیتی ہے۔ یوں وہ نئے گھر کی تلاش میں شکیل بھائی تک پہنچتا ہے۔ شکیل بھائی (جاوید شیخ) سرکاری ملازم ہیں جو اپنی بیوی (عنبر واجد) اور بہن نینا (عروہ حسین) کے ساتھ رہتے ہیں۔ وہ نینا کی شادی کرنا چاہتے ہیں مگر سسرال والوں کا مطالبہ ہے کہ جہیز میں گاڑی دی جائے۔ شکیل بھائی اپنا پرویڈنٹ فنڈ نکلوانا چاہتے ہیں تو انھیں پتا چلتا ہے کہ وہ کئی سال پہلے اپنی والدہ کے علاج کے لیے نکلوا چکے ہیں۔ شکیل بھائی فیصلہ کرتے ہیں کہ وہ اپنا گھر فروخت کرکے نینا کی شادی کریں گے۔ شکیل بھائی نے گھر کی بالائی منزل پر ایک کمرہ کرایے پر فرحان (فہد مصطفیٰ) کو دیا ہوا ہے۔ فرحان آئی ایف یو انشورنس کمپنی میں ایک ناکام ایجنٹ ہے جو طویل عرصے سے کوشش کے باوجود ایک پالیسی بھی فروخت نہیں کر سکا ہے۔ فرحان اور نینا ایک دوسرے سے شادی کرنا چاہتے ہیں۔ مون اور فرحان ایک ہی کمرے میں رہنے پر راضی ہوجاتے ہیں۔ مون کے گھر والے سمجھتے ہیں کہ وہ دبئی میں ہے اور اُس سے مسلسل رقم بھیجنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ مالی حالات سے تنگ آ کر اور کراچی میں بے امنی کے پیشِ نظر مون کو ایک منصوبہ سوجھتا ہے۔ وہ فرحان کو مشورہ دیتا ہے کہ کیوں نہ بینک میں تجوری مستعار لے کر اُس کی مہنگے داموں انشورنس کروا دی جائے؛ بعد ازاں جب شہر کے حالات خراب ہوں تو دنگا فساد کرنے والوں کی آڑ میں بینک کو آگ لگا دی جائے تاکہ انشورنس کی رقم ہاتھ آئے اور مالی مشکلات دور ہوجائیں۔ پہلے پہل تو فرحان اس تجویز کو بے وقوفانہ کہہ کر رد کر دیتا ہے لیکن جب اُسے انشورنس کمپنی سے نکال دیا جاتا ہے تو وہ اس منصوبے پر عمل کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔ شکیل بھائی کو پتا چلتا ہے کہ حکومت اُن کے علاقے میں ایک بالائی گزرگاہ تعمیر کروانا چاہتی ہے جس میں دوسرے کئی گھروں کے ساتھ اُن کا گھر بھی مسمار ہو جائے گا۔ یوں گھر فروخت کرنے کی اُمید بھی دم توڑ جاتی ہے۔ وہ خودکشی کی کوشش کرتے ہیں لیکن بچ جاتے ہیں۔ تب فرحان انھیں بھی بینک والے منصوبے میں شریک کرلیتے ہیں۔ فرحان بینک تجوری میں رقم رکھوانے کے لیے گوگی سے اُدھار لیتا ہے اور بدلے میں دُگنی رقم ادا کرنے کا معاہدہ کرتا ہے۔ لیکن جب وہ بینک پہنچتے ہیں تو وہاں ڈاکا پڑتا ہے اور وہ اپنی رقم سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ پھر شکیل بھائی اپنا گھر گوگی کے پاس گروی رکھوا کر رقم لیتے ہیں۔ بعد ازاں وہ فرداً فرداً بینک میں تین تجوریاں لیتے ہیں اور انشورنس ایجنٹوں کو دھوکا دہی سے متاثر کرکے مہنگے داموں انشورنس پالیسی خرید لیتے ہیں۔ ایک دن اچانک شہر کے حالات خراب ہوجاتے ہیں اور جب وہ بینک کو آگ لگانے پہنچتے ہیں تو عین موقع پر پولیس بھی پہنچ جاتی ہے اور اُن کا مشن ناکام ہوتا ہے۔ مالی حالات بگڑتے چلے جاتے ہیں اور ایک دن مون کو تلاش کرتے ہوئے گوگی شکیل بھائی کے گھر پہنچتا ہے تو اُسے اپنے تینوں شکار ایک ہی مل جاتے ہیں۔ تب سب پر انکشاف ہوتا ہے کہ تینوں ہی گوگی کے قرض دار ہیں۔ پھر ایک دن حالات خراب ہونے پر انھیں دوبارہ موقع ملتا ہے اور وہ بینک کو آگ لگانے میں کام یاب ہوجاتے ہیں۔
فلم کی عکس بندی سال 2014ء کے اوائل میں شروع ہوئی اور جون کے اختتام تک مکمل ہو گئی۔[6] یوں یہ پہلی پاکستانی فلم قرار پائی جو ایک ہی سال کے اندر تخلیق کے بعد نمائش کے لیے بھی پیش کردی گئی۔ نیز فلم جلیبی کے بعد یہ دوسری پاکستانی فلم ہے جس کی عکس بندی مکمل طور پر ایری ایلیکزا کیمرا سسٹم پر کی گئی۔ فلم والا پکچرز کے بینر تلے تیار ہونے والی یہ فلم فضا علی میرزا کی تخلیق ہے۔
5 ستمبر 2014ء کو پرل کونٹی نینٹل ہوٹل، کراچی میں ایک پریس کانفرنس منعقد ہوئی جس میں فلم کے فن کاروں اور پیش کاروں نے شرکت کی۔ اس پریس کانفرنس میں 9 گیتوں پر مشتمل فلم کا موسیقی البم جاری کیا گیا۔ فلم کے مرکزی کرداروں میں سے ایک محسن عباس حیدر نے نہ صرف دو گانے تحریر کیے ہیں بلکہ اپنی آواز میں گائے بھی ہیں۔ چار گانے صابر ظفر کے تحریر کردہ ہیں۔ مہوش حیات پر فلمایا جانے والا مقبول آئٹم گیت ’’بلّی‘‘ صائمہ اقبال نے گایا ہے جب کہ اس کے بول نبیل قریشی اور فضا علی میرزا نے خود لکھے ہیں۔ دیگر پسند کیے جانے والے گیتوں میں سجاد علی کا گایا ہوا گیت ’’پھرر پھرر‘‘ اور سارہ رضا خان کا گیت ’’در بدر‘‘ شامل ہے۔[7]
نمبر. | عنوان | بول | موسیقی | گلوکار | طوالت |
---|---|---|---|---|---|
1. | "سپنوں کی مالا" | محسن عباس حیدر | شانی | محسن عباس حیدر | 2:30 |
2. | "در بدر" | صابر ظفر | وکی حیدر نقاش حیدر | سارہ رضا خان | 3:54 |
3. | "پھرر پھرر" | صابر ظفر | شانی اور کامی | سجاد علی | 3:14 |
4. | "بلّی" | نبیل قریشی فضا علی میر | شانی اور کامی | صائمہ اقبال | 3:21 |
5. | "مکڑی کا جالا" | شانی | شانی | ||
6. | "گولی ٹی ٹی میں" | محسن عباس حیدر | شانی | محسن عباس حیدر | 1:20 |
7. | "مانگا تانگا" | صابر ظفر | شانی اور کامی | رجب علی | 2:38 |
8. | "میرے نہر" | صابر ظفر | شانی | N/A | N/A |
9. | "D.O.G" | N/A | N/A | N/A | N/A |
فلم کا پہلا نمائشی ٹریلر 27 جون 2014ء کو سوشل میڈیا پر جاری کیا گیا۔[8] بعد ازاں کراچی میں منعقدہ پریس کانفرنس میں اعلان کیا گیا کہ فلم پاکستان بھر میں عید الاضحیٰ 2014ء کے موقع پر نمائش کے لیے پیش کی جائے گی۔[9] باکس آفس پر فلم کا مقابلہ شان شاہد کی فلم آپریشن 21 اور ہریتھک روشن کی فلم بینگ بینگ سے مقابلہ ہے جن کی نمائش بھی عید ہی کے موقع پر شروع ہوئی۔
فلم کا پریمیئر 29 ستمبر 2014ء کو [ایٹریم سینما]، کراچی میں منعقد ہوا[10] جس میں فلم کے ہدایت کار اور پیش کار سمیت مرکزی کرداروں نے شرکت کی۔ اس موقع پر صحافیوں کی بڑی تعداد بھی موجود تھی۔ دی ایکسپریس ٹریبیون کے رافع محمد نے فلم کو پانچ میں سے چار ستارے دیتے ہوئے اسے عمدگی سے بنائی گئی پیسہ وصول فلم قرار دیا۔[11]
میگزین سنڈے میں سمرہ مسلم کے مطابق فلم تفریح سے بھرپور ہے اور پاکستان کی فلمی صنعت کو ایسی ہی فلم کی ضرورت تھی۔[12] ڈان ڈاٹ کام پر ملیحہ رحمان نے اسے 5 میں سے 4.5 ستارے دیے۔[13]
فلم عوامی نمائش کے لیے پیش ہوئی تو ملک بھر سے اسے سراہا گیا اور عوام نے مثبت رائے کا اظہار کیا۔ سینماؤں میں تمام شو مکمل طور پر بھرے رہے۔
نا معلوم افراد جب عید کے دن نمائش کے لیے پیش ہوئی تو اپنی حریف فلموں آپریشن 21 اور بینگ بینگ کے مقابلے میں اس کا آغاز سست رہا لیکن بعد ازاں اس نے بینگ بینگ کو پیچھے چھوڑ دیا اور عید کی ابتدائی تین دنوں میں 1.77 کروڑ روپے کا کاروبار کیا۔ پہلے ہفتے میں فلم 4.05 کروڑ روپے (380,000 امریکی ڈالر) کما چکی تھی۔ اپنی لاگت 9 کروڑ روپے[1] وصول کرنے کے بعد بھی فلم کی نمائش کام یابی سے جاری ہے اور باکس آفس پر 10 کروڑ روپے سے زائد[2] کا کاروبار کرچکی ہے۔