نریش مہتا | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 15 فروری 1922ء شاجا پور ضلع |
تاریخ وفات | 22 نومبر 2000ء (78 سال) |
شہریت | بھارت (26 جنوری 1950–) برطانوی ہند (–14 اگست 1947) ڈومنین بھارت (15 اگست 1947–26 جنوری 1950) |
عملی زندگی | |
پیشہ | مصنف |
پیشہ ورانہ زبان | کھڑی بولی ، ہندی |
کارہائے نمایاں | ارنیہ |
اعزازات | |
باب ادب | |
درستی - ترمیم |
نریش مہتا (15 فروری 1922ء – 22 نومبر 2000ء) ہندوستانی ادیب، نئی کویتا تحریک کے اہم شاعر اور ہندی زبان کے جدید ناول نگار تھے۔
مہتا کی پیدائش 15 فروری 1922ء کو شاجاپور میں ہوئی۔ شپر، نرمدا اور گنگا کی گود میں ان کی پرورش ہوئی۔ ان کی نظموں میں ان جگہوں کی یادوں کی جھلک صاف دکھائی دیتی ہے۔ نریش مہتا اگے کی مرت کردہ ہندی کے جدید شاعروں کے دوسرے انتخاب "تار سپتک" 1951ء کے اہم شاعر ہیں۔ معاصر زندگی کو جدید حسیت کے ساتھ پیش کرنا ان کا امتیاز ہے۔ شعری مجموعہ "ارنیہ" پر 1988ء میں ساہتیہ اکادی انعام اور مجموعہ "جیتیا" پر 1992ء میں گیان پیٹھ اعزاز سے سرفراز ہوئے۔ نریش مہتا کی طویل نظم "وقت دیوتا" میں وقت کو پارکھ اور ظالب و جابر کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے۔ 1958ء میں انھوں نے شری کانت ورما کے ساتھ "کری" کے نام سے ایک رسالہ جاری کیا جس کا مقصد نئی کویتا تحریک کو مضبوط کرنا تھا۔ نریش مہتا اپنی نظموں میں ایک صوفی کی دردمندی کے ساتھ زمین اور انسان کی بھلائی اور سکھ کی دعا کرتے ہیں۔ ان کی کویتاؤں میں انسانی عظمت اور فطرت سے گہرا لگاؤ زرعی معاشرے کی طرف مراجعت کی خواہش اور عالمگیر انسانیت سے بے پناہ عقیدت کا اظہار ملتا ہے۔
نریش مہتا کو فطری مناظر سے بے پناہ دلچسپی ہے۔ نریش مہتا جدید ہندی کے اہم ناول نگار بھی ہیں، "دوبتے مستول" عورت کی ایک خاص نفسیات پر مبنی ہے۔ ایک عورت کئی مردوں سے محبت کا کھیل کھیلتی ہے۔ ناول میں سب کچھ کھول کھول کر بیان کر دیا ہے اس لیے اس کی ادبی قدر کم ہو گئی ہے۔ نریش مہتا کی پہچان "یہ پتھ بندھو تھا" جیسے ناول سے بنی جس میں جدید انسان کے داخلی تجربوں اور احساسات کی ترجمانی کی گئی ہے۔ یہ فنی اعتبار سے نہایت پختہ ناول ہے۔ "ندی لیشوی ہی" تخلیقی اعتبار سے تو جدید ہے لیکن اس میں رومانیت کا بھی اثر ہے۔