نسوانی جنسی بے راہ روی

نسوانی جنسی بے راہ روی (انگریزی: Female promiscuity) معاشرے میں اس لیے زیادہ قبیح تصور کی جاتی ہے کیوں کہ اگر چیکہ مردانہ اور عورتوں کی بے راہ روی عمومًا غلط سمجھی جاتی ہیں، تاہم یہ عام طور سے سماجوں یہ تصور پایا گیا ہے کہ مردوں میں بے راہ روی اور بے وفائی اپنی اندرونی شہوانیت کی وجہ سے فطری سمجھا گیا ہے جب کہ عورت شرم و حیا کا پیکر سمجھی گئی، اس کا بے راہ روی کرنا زیادہ معیوب اور بے شرمی کا سبب سمجھا گیا ہے۔ [1]

جدید دور میں عورتوں کی بے راہ روی کے اسباب

[ترمیم]

جدید دور میں دن رات بازاروں میں بن سنور کر انتہائی تنگ لباس پہنے گھومتی نظر آنے والی خواتین بہ ظاہر مغربی ممالک کی دیکھا دیکھی کام کرتی ہیں۔کئی بار جسم کا ایک ایک عضو نمایاں ہو رہا ہوتا ہے۔ دوپٹہ تو دور کی بات، کپڑے اتنے باریک ہوتے ہیں کہ سب کچھ نظر آتا ہے دیکھنے والوں کو عملًا جسم کی ساخت کا اندازہ ہوتا ہے[2]۔ اس وجہ سے بھی قدامت پسند لوگ عورتوں میں بڑھتی نسوانی جنسی بے راہ روی کی اسے پہلی منزل قرار دیتے ہیں۔

دیگر وجوہ جن کی وجہ سے یہ دعوٰی کیا گیا ہے جدید دور میں عورتوں میں بے راہ روی پھیل رہی ہے:

  • معاشرے کے مستحکم اور فیصلہ کن اہمیت وحیثیت رکھنے والے افراد کار سے ربط وضبط بڑھانا تاکہ راستے کی رکاوٹوں کو دور کیا جاسکے۔
  • اشتہارات کی تشہیر اور لٹریچر کی اشاعت کے ذریعہ رائے عامہ کی ہمواری۔
  • باقاعدہ اور منظم طریقہ کار کے تحت عدالتوں میں ”عورتوں کے لیے جنسی فیصلوں کی آزادی“ کے عنوان سے من پسند شادی کرنے والے جوڑوں کے مقدمات عدالت میں ہیں تاکہ بین الاقوامی سطح پر اس طرز عمل کی زیادہ سے زیادہ پزیرائی ہو سکے۔
  • جنسی بے راہ روی کو ہوا دینے کے لیے مخلوط تعلیمی اداروں کے قیام کی بھرپور حوصلہ افزائی۔
  • دفاتر، فیکٹریوں اور کارخانوں میں مرد وعورت کے اختلاطی ماحول کی نشو و نما۔ نوبت بایں جا رسید کہ بعض مسلم ممالک میں مخلوط ماحول پیدا کرنے کے لیے ایجوکیشن، انجینئرنگ، اکاؤنٹس اور دیگر دفتری امور کے لیے خواتین کیڈٹس کی بھرتی جاری وساری ہے۔
  • ذرائع ابلاغ کے ذریعہ مخلوط محفلوں کی خبریں، کہانیاں اور رپورتاژ منظر عام پر لائی جارہی ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا سے پیش کیے جانے والے پروگراموں میں جنسی آزادی اور خاندانی منصوبہ بندی کے مقاصد کو خصوصی طور پر اجاگر اور نمایاں کیا جارہا ہے۔“[3]

مزید دیکھیے

[ترمیم]

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. RF Baumeister (2004)۔ "Gender and erotic plasticity: Sociocultural influences on the sex drive"۔ Sexual and Relationship Therapy۔ 19 (2): 133–139۔ doi:10.1080/14681990410001691343 
  2. ’عورتوں میں بڑھتی ہوئی بے حیائی‘
  3. مغربی تہذیب وثقافت اور مسلمان خواتین!